نمرہ کاظمی کیس: عدالت کا کراچی پولیس کی تفتیش پر اظہار عدم اطمینان

نمرہ کاظمی کے مبینہ اغوا کے خلاف سعود آباد تھانے میں مقدمہ درج کیا گیا تھا—فائل فوٹو: اے پی
نمرہ کاظمی کے مبینہ اغوا کے خلاف سعود آباد تھانے میں مقدمہ درج کیا گیا تھا—فائل فوٹو: اے پی

کراچی کے جوڈیشل مجسٹریٹ نے کراچی سے مبینہ اغوا ہونے والی نمرہ کاظمی کے کیس کی تفتیش میں خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے عدم اطمینان کا اظہار کردیا جبکہ لڑکی نے بظاہر پنجاب میں اپنی مرضی سے شادی کرلی ہے۔

کراچی کے علاقے سعود آباد کی رہائشی 16 سالہ نمرہ کاظمی گزشتہ ہفتے مبینہ طور پر لاپتہ ہو گئی تھیں اور بعد میں پنجاب میں سامنے آئی تھیں اور کہا تھا کہ انہوں نے والدین کے گھر کو اپنی مرضی سے چھوڑا ہے۔

مزید پڑھیں: کراچی میں ایک اور نوعمر لڑکی 'لاپتا' ایف آئی آر درج

جوڈیشل مجسٹریٹ (شرقی) جاوید احمد کوریجو نے سماعت کی جہاں عدالت کے سامنے کیس کے تفتیشی افسر (آئی او) نے ڈاکیومینٹری سمیت ثبوت پیش کیے۔

جج نے نشان دہی کی کہ نکاح نامے میں خامیاں ہیں اور تفتیشی افسر سے سی ڈی آر ڈیٹاریکارڈ طلب کرلیا۔

جج نے کہا کہ سی ڈی آر کے مطابق لڑکی 20 اپریل کو اپنے گھر میں تھی اور سوال کیا کہ کیسے وہ 18 اپریل کو پنجاب کے شہر تونسہ شریف میں اپنی مرضی سے شادی کریں گی جیسا کہ نکاح نامے میں لکھا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سی ڈی آر اور نکاح نامے میں درج تاریخوں میں فرق واضح نظر آرہا ہے اور بادی النظر میں پولیس ان کے مبینہ اغوا میں ملوث افراد کی گرفتاری کی کوشش میں ناکام ہوچکی ہے۔

مجسٹریٹ نے مزید کہا کہ تفتیشی افسر نے معاملے کی معمولی انداز میں سرسری تفتیش کی ہے اور مشکوک نکاح نامہ حاصل کرکے اس کی نقل عدالت میں جمع کرا دی ہے۔

رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے جج نے تفتیشی افسر کو ہدایت کی کہ اگلی سماعت پر تفصیلات اور جاممع تفتیشی رپورٹ جمع کرائیں۔

جوڈیشل مجسٹریٹ نے سماعت 9 مئی تک ملتوی کردی۔

والدین کی پولیس کے بارے میں شکایت

نمرہ کاظمی کے والدین نے پولیس عہدیداروں کے خلاف عدالت سے رجوع کیا اور دعویٰ کیا کہ وہ بیٹی کے اغوا کی تفتیش میں تعاون نہیں کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی پولیس کو مغوی لڑکی کی بازیابی کیلئے انٹیلیجنس ایجنسیز کی مدد درکار

والدین نے گزشتہ ہفتے شکایت کی تھی کہ ان کی بیٹی سعود آباد کے قریبی علاقے سے اچانک غائب ہوگئی تھیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ واقعے کے بعد ان کی بیٹی کا ایک ویڈیو پیغام سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس پر اچانک چلنے لگا اور اس بحث چھڑ گئی۔

والدین نے بتایا کہ ویڈیو پیغام میں نمرہ کاظمی کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ انہوں نے والدین کا گھر اپنی مرضی سے چھوڑا اور بعد ڈیرہ غازی خان میں اپنی پسند سے شادی کی ہے۔

عدالت کو انہوں نے آگاہ کیا کہ لاہور پولیس نے بعد میں دعویٰ کیا تھا کہ ہماری بیٹی کو بازیاب کروایا ہے، جو 18 سالہ ہیں۔

انہوں نے مزید شکایت کی کہ پولیس عہدیدار انہیں اپنی بیٹی سے ملنے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔

والدین نے عدالت سے استدعا کیا کہ سعود آباد تھانے کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) کو طلب کرکے انہیں معاملے پر تفتیش کے حوالے سے پوچھا جائے کہ ان کی بیٹی کی شادی کیسے ہوسکتی ہے جبکہ وہ نابالغ ہے۔

عدالت سے انہوں نے درخواست کی کہ ایس ایچ اور اور دیگر سینئر عہدیداروں کو حکم دیں کہ وہ ہماری بیٹی سے ملاقات کی اجازت دیں۔

خیال رہے کہ نمرہ کاظمی کے مبینہ اغوا کا مقدمہ سعود آباد پولیس اسٹیشن میں ان کے گھر والوں کی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف درج کیاگیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں