حمزہ شہباز کی حلف برداری کا فیصلہ سنانے والے جج کےخلاف ریفرنس بھیج رہا ہوں، گورنر پنجاب

اپ ڈیٹ 05 مئ 2022
عمر چیمہ نے کہا کہ صوبہ جو ایک آئینی اور قانونی بحران کا سامنا کر رہا ہے—فوٹو: ڈان نیوز
عمر چیمہ نے کہا کہ صوبہ جو ایک آئینی اور قانونی بحران کا سامنا کر رہا ہے—فوٹو: ڈان نیوز

گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کی حلف برداری کا ’غیر قانونی‘ فیصلہ سنانے والے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس جواد حسن کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) ریفرنس بھیجنے کا اعلان کردیا۔

لاہور میں پریس کانفرس سے خطاب میں گورنر پنجاب کا کہنا تھا کہ صوبے میں جاری سیاسی بحران سب سے سامنے ہے، وقت کم مقابلہ سخت ہے۔

انہوں نے کہا کہ پہلے دن جب سے سابق وزیر اعظم نے مجھے نامزد کیا اور صدر پاکستان نے مجھے گورنر کے عہدے پر تعینات کیا تب اتنا بحران نہیں تھا جتنا آج پیدا ہوگیا ہے، اس وقت صرف وزیر اعلیٰ پنجاب نے استعفیٰ دیا تھا اور نئے وزیر اعلیٰ کے لیے انتخاب ہونا تھا، مجھے لگا تھا یہ معاملہ جلد حل ہوجائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ گورنر کے عہدے کی پیش کش قبول کرنے کا واحد مقصد یہ تھا کہ میں لوگوں کے لیے آسانی کرنے کی کوشش کروں گا، مجھے خوشی ہے کہ ان چند دنوں میں کچھ کام کرنے میں کامیاب ہوگیا ہوں۔

عمر سرفراز چیمہ نے کہا کہ یہ بہاالدین ذکریا یونیورسٹی کے قانون کے طلبہ کا معاملہ تھا، میں نے قانون کے مطابق ان کا امتحان لیا، لاہور کی یونیورسٹی کا انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ کا مسئلہ حل کیا، یونیورسٹی کے اساتذہ کے فنڈ کا مسئلہ حل کیا۔

یہ بھی پڑھیں: جعلی وزیراعلیٰ پنجاب کی تقریب حلف برداری بھی جعلی ہے، گورنر پنجاب

پنجاب کے سیاسی حالات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ انوکھے لاڈلے کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے، یہ جو واردات مرکز میں ہوئی وہی پنجاب میں کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس بحران میں تین طرح کے کردار سامنے آئے، ایک عدالت، پارلیمنٹرینز اور سیاسی جماعتیں ہیں۔

’عدالت کو دھوکا دے کر غلط فیصلہ کروایا گیا‘

انہوں نے کہا کہ میں یہ بات فخر سے کہتا ہوں کہ پنجاب کی عدلیہ نے اس تمام تر دباؤ کے باوجود فیصلے دیے، انہیں نے دباؤ کے باجود کوئی غیر آئینی فیصلہ نہیں سنایا، ان وارداتیوں نے عدالت سے جو فیصلہ لیا وہ حقائق کو توڑ مروڑ کر لیا گیا، عدالت کو دھوکا دے کر ان سے غلط فیصلہ کروایا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پنجاب میں جو الیکشن ہوئے اسے ہم کسی بھی نوعیت سے انتخابات نہیں کہہ سکتے کہ میں الیکشن لڑ رہا ہوں اور میں اپنا ووٹ ہی نہ ڈالوں‘۔

گورنر پنجاب نے کہا کہ یہ کوئی الیکشن نہیں کہ ایک غنڈا بیلٹ باکس پرکھڑا کردیا جائے اور میرے ووٹرز کو مار مار کر وہاں سے بھاگنے پر مجبور کردے، یہ کس معیار کا انتخاب ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے بعد پارلیمنٹ کا کردار آتا ہے، اگرپارلیمنٹرینز اپنے ایوان کے تقدس کو ہی نہیں بچا سکتے تو انہوں نے عوام کو کیا ریلیف دینا ہے، اس سارے بحران میں یہ بات سامنے آئی کہ لگتا ہے پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں موجود رہنماؤں اور کارکنان نے کبھی پاکستان کی سیاسی تاریخ پڑھی ہے نہ پاکستان کا آئین پڑھا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر سیاسی تاریخ پڑھی ہوتی تو انہیں یاد ہوتا کہ ذوالفقار علی بھٹو کا سیاسی قتل کیسے ہوا، کیسے ان کے خلاف بیرون ملک سازش ہوئی، آپ کے آباؤ اجداد نے آپ کو پکی پکائی ایم این اے، ایم پی اے شپ دے دی ہے۔

مزید پڑھیں: گورنر پنجاب نے نومنتخب وزیر اعلیٰ کی تقریب حلف برداری مؤخر کردی

’جسٹس جواد حسن کے خلاف قانونی کارروائی کریں گے‘

عمر سرفراز چیمہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے چیف سیکریٹری کو دباؤ میں لے کر نوٹی فکیشن جاری کروایا اور لاہور ہائی کورٹ سے اسپیکر قومی اسمبلی کے ذریعے حلف لینے کا غیر آئینی فیصلہ کروایا، ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم جسٹس جواد حسن کے خلاف قانون کارروائی کریں گے اور بطور گورنر پنجاب میں ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیج رہا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سیاسی بحران کے جو دو مرکزی کردار ہیں وہ وزیر اعظم اور ان کا بیٹا ہے، باپ نے مرکز سے حکومت کو ہٹایا اور عدلیہ کا استعمال کیا گیا اس پر کسی بھی پارلیمنٹرین نے احتجاج نہیں کیا اور اس کا نتیجہ ہم نے پنجاب میں دیکھا۔

گورنر پنجاب نے کہا کہ میں نے وزیر اعظم کو ایک کھلے مناظرے کی پیشکش کی تھی، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما خود مجھ سے متفق ہیں، ان جماعتوں میں سب کرپٹ نہیں ہیں، اچھے لوگ بھی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں ڈکٹیشن لینے والا بندا نہیں ہوں، میرے پاس کوئی فورس نہیں ہے، جس دن انہوں نے گورنر ہاؤس کو یرغمال بنایا تو میں نے ایس ایچ او سے لے کر چیف جسٹس تک سب سے رابطہ کیا۔

انہوں نے بتایا کہ کل میں صدر پاکستان سے ملاقات میں آئینی پوائنٹ پر تبادلہ خیال کروں گا اور بعد ازاں آرمی چیف سے ملاقات کروں گا، کیونکہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا مسئلہ ہے جسے ایک انوکھے لاڈلے نے یرغمال بنایا ہوا ہے۔

عمر سرفراز چیمہ نے شہباز شریف کو نصیحت کی کہ اپنے بیٹے کو سمجھائیں، اگر آپ نے انہیں اپنے وزارت اعلیٰ کے دور میں ہی روک دیا ہوتا تو آج صوبے میں یہ بحران نہ ہوتا، میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ یہ آئینی اور قانونی طریقے سےانتخابات لڑ کر آئے تو میں خود اس کا حلف لوں گا۔

مدینہ منورہ میں پیش آنے والے واقعے پر ان کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے دو اعلامیے بھی آچکے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کو بیرونی طاقتوں اور سازش سے بہت بڑا خطرہ ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ کیا پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ سندھ میں بھی اسی طرح کی غنڈہ گردی سے وزارت اعلیٰ کا عہدہ لے لیا جائے۔

عمر چیمہ نے کہا کہ سسیلین مافیا کو ریلیف دینے کے لیے آپ رات گئے عدالتیں کھول دیتے ہیں اور ان کے نیب کیسز کے لیے عدالتیں نہیں کھولی جاتیں۔

یہ بھی پڑھیں: نومنتخب وزیراعلیٰ پنجاب تاحال حلف نہ اٹھا سکے

حمزہ کی گرفتاری کیلئے آرمی چیف سے فوجیوں کا مطالبہ

قبل ازیں گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے دعویٰ کیا کہ اگر چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ انہیں ایک صوبیدار اور چار جوان فراہم کریں تو وہ حال ہی میں حلف اٹھانے والے ’جعلی وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیں گے‘۔

انہوں نے کہا کہ صوبہ آئینی اور قانونی بحران کا سامنا کر رہا ہے اور اس کو ’طاقت کے ذریعے یرغمال بنایا گیا‘، انہوں نے سیاسی جماعتوں کی خاموشی کو ’انتہائی تشویشناک‘ قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر پنجاب میں وزیر اعلیٰ بننے کے لیے حمزہ شہباز کے فارمولے کو سب نے مان لیا تو باقی صوبوں کو اپنی فکر کرنا شروع کر دینی چاہیے۔

پنجاب میں بحران اس وقت شروع ہوا تھا جب پنجاب اسمبلی کے ہنگامہ خیز اجلاس میں حمزہ شہباز کے بطور وزیر اعلیٰ انتخاب کے ایک روز بعد یعنی 17 اپریل کو گورنر نے نومنتخب وزیر اعلیٰ سے حلف لینے سے انکار کردیا تھا۔

عمر سرفراز چیمہ نے سیکریٹری کی رپورٹ، لاہور ہائی کورٹ (ایل ایچ سی) کی ہدایات اور ان کے سامنے پیش کیے گئے حقائق کو حلف نہ لینے کی وجوہات بتایا تھا جن میں انتخاب کے درست ہونے پر اعتراضات اٹھائے گئے تھے۔

پنجاب اسمبلی کے ہنگامہ خیز اجلاس کے دوران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے متعدد اراکین اسمبلی زخمی ہوئے تھے۔

زخمی ہونے والوں میں اسمبلی کے اسپیکر چوہدری پرویز الہٰی بھی شامل تھے، جو وزارت اعلیٰ کے دو امیدواروں میں سے ایک تھے۔

حمزہ نے 197 ووٹ حاصل کیے تھے جن میں پی ٹی آئی کے 26 منحرف اراکین کے ووٹ بھی شامل تھے، جبکہ پرویز الہٰی کو کوئی ووٹ نہیں ملا تھا کیونکہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے قانون سازوں کا خیال تھا کہ انہیں ووٹ دینے کی اجازت نہیں ہے۔

تین درخواستیں اور ڈیڈلاک

حمزہ شہباز نے گورنر کی جانب سے حلف لینے سے انکار پر 21 اپریل کو لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا، جس نے صدر عارف علوی کو ہدایت کی تھی کہ وہ گورنر کی غیر موجودگی کی صورت میں حلف لینے کے لیے کوئی نمائندہ مقرر کریں۔

تاہم صدر کی جانب سے عدالتی ہدایت پر عملدرآمد میں تاخیر کے بعد حمزہ نے 25 اپریل کو دوسری بار عدالت سے رجوع کیا اور استدعا کی کہ عدالت عالیہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو ان سے حلف لینے کی ہدایت کرے۔ اپنے حکم میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس امیر بھٹی نے گورنر عمر سرفراز چیمہ کو ہدایت کی تھی کہ وہ 28 اپریل تک حمزہ کی حلف برداری کا عمل مکمل کریں۔

جب صدر اور گورنر عدالتی ہدایات پر عملدرآمد میں ناکام رہے تو حمزہ شہباز شریف نے 29 اپریل کو تیسری بار ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

عدالتی ہدایات پر اگلے روز بالآخر اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے حمزہ شہباز سے حلف لیا تھا۔

تاہم حمزہ کی تقریب حلف برداری سے محض چند گھنٹے قبل عمر سرفراز چیمہ نے پچھلے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کا استعفیٰ مسترد کرتے ہوئے ان کی کابینہ بحال کردی تھی، جنہوں نے بعد ازاں اجلاس بھی طلب کیا تھا۔

جس وقت تقریب حلف برداری جاری تھی، عمر سرفراز چیمہ نے چیف جسٹس پر زور دیا تھا کہ وہ گورنر ہاؤس میں اس ’غنڈہ گردی‘ کا نوٹس لیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’غیر قانونی‘ طور پر ’جعلی وزیر اعلیٰ کے حلف کا ڈرامہ‘ رچایا گیا۔

گورنر نے حمزہ شہباز کے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے نوٹی فکیشن کو بھی ’جعلی‘ قرار دیا تھا۔

اگلے روز پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا تھا کہ سارے فتنہ کی وجہ عثمان بزدار کا استعفیٰ ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں