نیا گورنر سندھ کون؟ ایم کیو ایم پاکستان نے پانچ نام وزیراعظم کو بھجوا دیے

عامر خان اور نسرین جلیل گورنر کے عہدے کی دوڑ میں شامل ہیں— فائل فوٹو: ڈان نیوز
عامر خان اور نسرین جلیل گورنر کے عہدے کی دوڑ میں شامل ہیں— فائل فوٹو: ڈان نیوز

کراچی: متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے جہاں گورنر سندھ کے انتخاب کے لیے وزیر اعظم کو پانچ نام بھیجے ہیں، وہیں سینئر رہنما نسرین جلیل اور امیر تاجر عامر چشتی گورنر سندھ کے عہدے کے لیے سرفہرست دعویدار کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تاہم، ایم کیو ایم پی کے کئی رہنماؤں کے ساتھ پس پردہ ہونے والی گفتگو میں یہ تجویز کیا گیا ہے کہ پارٹی کے رہنماؤں کی اکثریت نسرین جلیل کی پارٹی سے طویل عرصے سے وابستگی کی وجہ سے انہیں نئے گورنر کے طور پر دیکھنا چاہتی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اگر ان کی تقرری کی گئی تو رانا لیاقت علی خان کے بعد تقریباً پانچ دہائیوں میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہونے والی پہلی خاتون گورنر ہوں گی، جو 1973 میں سندھ کی گورنر بنی تھیں۔

مزید پڑھیں: ایم کیو ایم کا ’دھمکی آمیز خط‘ کی تحقیقات کیلئے عدالتی کمیشن بنانے کا مطالبہ

انہوں نے ڈان کو بتایا کہ پارٹی کی رابطہ کمیٹی کی ڈپٹی کنوینر نسرین جلیل، سینئر ڈپٹی کنوینر عامر خان، ڈپٹی کنوینر اور سابق میئر کراچی وسیم اختر، رکن قومی اسمبلی کشور زہرہ اور بزنس مین عامر چشتی کے نام وزیراعظم شہباز شریف کو بھجوا دیے گئے ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ(ن) اور ایم کیو ایم پاکستان کے درمیان اقتدار کی تقسیم کے معاہدے کے مطابق مؤخر الذکر کو دو وفاقی وزارتوں کے ساتھ ساتھ سندھ کے گورنر کا عہدہ بھی دیا گیا تھا۔

سینیٹر فیصل سبزواری اور رکن قومی اسمبلی امین الحق نے کابینہ کے پہلے مرحلے میں وفاقی وزرا کی حیثیت سے حلف اٹھایا لیکن ایم کیو ایم کے پاس پارٹی کے دو سینئر رہنماؤں کے درمیان مبینہ رسہ کشی کی وجہ سے کئی دنوں سے متفقہ امیدوار کا فیصلہ نہیں ہو سکا کیونکہ دونوں ہی امیدوار اس اہم ترین منصب کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر ایم کیو ایم کے رہنماؤں اور کارکنوں کی اکثریت نے محسوس کیا کہ پارٹی کو گورنر کا رسمی عہدہ نہیں لینا چاہیے کیونکہ اس کے پاس متفقہ امیدوار نہیں ہے۔

لیکن جب نسرین جلیل کا نام زیر بحث آیا تو ذرائع نے بتایا کہ فیصلہ سازی کے عمل میں تقریباً سبھی نے اس پر اتفاق کیا کیونکہ نسرین جلیل کے پاس دو مرتبہ سینیٹر اور 2005 سے 2010 کے درمیان سٹی کونسل کی سربراہ کی حیثیت سے ڈپٹی میئر کراچی رہنے کے ناطے انتظامی اور قانون سازی دونوں کا تجربہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت سے علیحدگی کے بعد ایم کیو ایم کے دونوں وفاقی وزرا مستعفی

نسرین جلیل اپنے مرحوم شوہر ایم اے جلیل کے ساتھ ایم کیو ایم کے ساتھ کھڑی رہیں، جب ایم کیو ایم کو لندن سے الطاف حسین کی قیادت میں چلایا جا رہا تھا تو اس وقت بھی انہیں ہمیشہ ایک معتدل اور سمجھدار آواز سمجھا جاتا تھا، جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو ان کے والد لاہور کے ڈپٹی کمشنر تھے، ان کی بہن یاسمین لاری ایک مشہور ماہر تعمیرات ہیں۔

تاہم اندرونی ذرائع نے بتایا کہ مقتدر حلقوں کی جانب سے ان کی اکیلے نامزدگی پر خدشات کا اظہار کیا گیا ہے اور اس کے نتیجے میں ایم کیو ایم-پاکستان نے وزیر اعظم کو مزید نام بھیجے تاکہ وہ اس کام کے لیے موزوں امیدوار کا انتخاب کر سکیں۔

ایم کیو ایم کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ پہلے تو ہماری طرف سے صرف تین نام نسرین جلیل، عامر خان اور وسیم اختر تھے، بعد میں امیر چشتی بھائی اور کشور زہرہ باجی کے نام بھی فہرست میں شامل کیے گئے۔

جب کہ ایم کیو ایم پاکستان نے اس معاملے پر باضابطہ طور پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے، تاہم اندرونی ذرائع نے بتایا کہ کراچی کے سابق میئر وسیم اختر اور عامر خان کے نام پر مقتدر حلقوں خی جانب سے اعتراضات اٹھائے گئے ہیں کیونکہ ان پر دہشت گردی سے متعلق متعدد مقدمات میں فرد جرم عائد ہے۔

مزید پڑھیں: صدر مملکت نے گورنر سندھ عمران اسمٰعیل کا استعفیٰ منظور کرلیا

ان کا کہنا تھا کہ اندرونی طور پر وسیم اختر کے طرز حکمرانی پر ان کی میئر شپ کے دوران اعتراضات تھے جبکہ عامر خان کو اب بھی ایک 'آؤٹ سائیڈر'(باہر کا فرد) سمجھا جاتا تھا کیونکہ وہ پہلے ایم کیو ایم۔حقیقی کے بانی رہنما تھے اور انہیں ایم کیو ایم میں واپس آئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔

رکن قومی اسمبلی کشور زہرہ کا بھی یہی معاملہ ہے جو 70 کی دہائی کے آخر میں آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے بانی ارکان میں شامل تھیں لیکن ایم کیو ایم کے خلاف جون 1992 کے فوجی آپریشن کے بعد برسوں غیر فعال رہیں۔

اندرونی ذرائع نے بتایا کہ پانچویں امیدوار عامر چشتی ایم کیو ایم کے مقتول رہنما خالد بن ولید کے بھائی ہیں، وہ 90 کی دہائی کے اوائل میں گورنمنٹ پریمیئر کالج نارتھ ناظم آباد کے یونٹ انچارج کے طور پر اے پی ایم ایس او سے بھی وابستہ رہے تاہم انہوں نے اپنی توجہ سیاست سے کاروبار کی طرف منتقل کردی تھی، انہوں نے 2018 کے عام انتخابات اور بعد میں گلشن اقبال میں قومی اسمبلی کی نشست پر ضمنی انتخاب لڑا تھا۔

شجر کیپیٹل پاکستان لمیٹڈ کی ویب سائٹ پر پوسٹ کی گئی ان کی پروفائل کے مطابق عامر چشتی "صحت کی دیکھ بھال، تعلیم، مالیاتی بروکریج، مہمان نوازی اور حال ہی میں تیل کی مارکیٹنگ کے میدان میں کمپنیوں/اداروں کا کامیابی سے انتظام سنبھال رہے ہیں، وہ دارالشفا انٹرنیشنل لمیٹڈ، ایڈمور گیس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل ہیں اور دارالصحت ہسپتال اور لیاقت کالج آف میڈیسن اینڈ ڈینٹسٹری کے بورڈ کے چیئرمین بھی ہیں۔

ایک ذرائع نے بتایا کہ عامر چشتی کے مسلم لیگ(ن) کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی بہت اچھے تعلقات ہیں، مبینہ طور پر ان کے مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے دو انتہائی سینئر ارکان سے کاروباری تعلقات بھی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ایم کیو ایم سندھ حکومت میں اتحادی بن سکتی ہے، سعید غنی

ایم کیو ایم پاکستان کے ایک سینئر رہنما نے کہا کہ میں ان لوگوں میں شامل تھا جو گورنر کا عہدہ قبول کرنے کے خلاف تھے لیکن پارٹی نے یہ عہدہ لینے کا فیصلہ کیا، میرے خیال میں نسرین جلیل اور عامر چشتی ہمارے تمام امیدواروں میں بہترین ہیں، مجھے امید ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف درست فیصلہ کریں گے، اگر وزیراعظم نے ان سب کے نام مسترد کرنے کا فیصلہ کیا تو پارٹی مسلم لیگ(ن) کے امیدوار کے حق میں دستبردار ہو سکتی ہے۔

ایک اور رہنما نے واضح طور پر کہا کہ نسرین جلیل ہماری طرف سے سرفہرست امیدوار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان کے علاوہ کسی بھی امیدوار کے تقرر کے نتیجے میں اندرونی انتشار پیدا ہو گا اور فاروق ستار کی جانب سے ایم کیو ایم پاکستان چھوڑ کر اپنا پی آئی بی گروپ بنانے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم ابھی تک 5 فروری 2018 کی تقسیم سے مکمل طور پر بحال نہیں ہوئے ہیں، ہم ایک اور کے متحمل نہیں ہوسکتے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں