ایم کیو ایم سندھ حکومت میں اتحادی بن سکتی ہے، سعید غنی

15 مارچ 2022
صوبائی وزیر اطلاعات سعید غنی کراچی میں پریس کانفرنس کر رہے تھے—فائل/فوٹو: ڈان نیوز
صوبائی وزیر اطلاعات سعید غنی کراچی میں پریس کانفرنس کر رہے تھے—فائل/فوٹو: ڈان نیوز

وزیر اطلاعات و محنت سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ ابھی تک متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان سندھ حکومت میں اتحادی بننے سے متعلق تاحال کوئی بات چیت نہیں ہوئی ہے، تاہم، یہ امکان موجود ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان تعلقات میں بہتری کے بعد ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت میں اتحادی بن جائے۔

کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اطلاعات سندھ کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم نے تاحال پیپلز پارٹی سے صوبائی حکومت کا حصہ بننے سے متعلق نہیں کہا، ایم کیو ایم اور پی پی پی کے درمیان اس کے سندھ حکومت کا حصہ بننے اور اسے صوبائی کابینہ میں جگہ دینے کے لیے کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: 'وزیراعظم نے قسم کھائی ہے کہ کسی ادارے کو غیر متنازع رہنے نہیں دوں گا'

ایک سوال کے جواب میں صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے پاس گورنر سندھ کے تقرر کا اختیار نہیں اور نہ ہی گورنر کا عہدہ صوبائی حکومت کا حصہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ میں ایم کیو ایم کا سخت مخالف ہوں لیکن میری رائے میں دونوں جماعتوں کے درمیان ہونے والی بات چیت میں ان کی جانب سے اب تک اٹھائے گئے تمام مسائل جائز اور حل طلب ہیں۔

سعید غنی کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم نے شہری آبادی کے لیے سرکاری ملازمتوں میں 40 فیصد کوٹہ کا معاملہ اٹھایا اور کہا کہ بوگس ڈومیسائل کی وجہ سے شہری آبادی کے ساتھ ناانصافی کی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم نے بھی صوبے میں میونسپل گورننس کے نظام کے حوالے سے اپنے خیالات پیش کیے ہیں جبکہ سندھ حکومت نے سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق صوبائی بلدیاتی قانون میں کی گئی ترمیم کے لیے تمام اپوزیشن جماعتوں کی نمائندگی پر مشتمل کمیٹی پہلے ہی تشکیل دے دی ہے۔

مزید پڑھیں:پی ٹی آئی کے وزرا کو آئین کہیں سے چھو کر بھی نہیں گزرا، سعید غنی

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان محاذ آرائی کی صورتحال کا سب سے زیادہ نقصان سندھ کو اٹھانا پڑا ہے جبکہ طویل سیاسی تنازع کے باعث کراچی اور شہری سندھ کے دیگر علاقوں میں ایم کیو ایم کے روایتی ووٹ بینک کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

صوبائی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ انہوں نے ہمیشہ صوبے کے شہری علاقوں میں ایم کیو ایم کے مینڈیٹ اور ووٹ بینک کا احترام کیا ہے جہاں سے ان کے امیدوار ہمیشہ الیکشن جیتتے آئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کا عسکری ونگ اور سیاسی ونگ دو الگ الگ دھڑوں کی طرح ہیں، ہم سیاسی ونگ سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں لیکن پارٹی کے عسکری حصے سے کبھی مذاکرات نہیں ہو سکتے۔

انہوں نے یاد دلاتے ہوئے کہا کہ لندن میں آل پارٹیز کانفرنس کے دوران مرحومہ بے نظیر بھٹو کا بھی یہی مؤقف تھا۔

یہ بھی پڑھیں:ایم کیو ایم کارکن کی موت پولیس تشدد سے نہیں دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی، سعید غنی

سعید غنی کا کہنا تھا کہ اگر مستقبل میں ایم کیو ایم دوبارہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث پائی گئی تو وہ ضرور اس کے خلاف آواز اٹھائیں گے۔

انہوں نے پیش گوئی کرتے ہوئے کہا کہ اگر تحریک عدم اعتماد پر ملک کے آئین کی روح کے مطابق ووٹنگ ہوئی تو وزیراعظم عمران خان کو پارلیمنٹ میں شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑے گا اور عمران خان جلد ہی سابق وزیراعظم کہلائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے وژن اور سیاست کی وجہ سے وزیراعظم عمران کو اپنی حکمرانی بچانے کے لیے دربدر بھاگ دوڑ اور جدوجہد کرنی پڑھ رہی ہے، انہوں نے کہا کہ اگر عمران خان کو اپنے اتحادیوں کی حمایت حاصل بھی رہی تو بھی ملک میں ان کی حکمرانی جلد ختم ہو جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ 1989 میں اس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تو پیپلز پارٹی عوام میں مقبول سیاسی جماعت تھی جبکہ پاکستان تحریک انصاف کی اس وقت ملک میں اتنی مقبولیت نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں:پی ٹی آئی نئی ایم کیو ایم ہے، لسانی سیاست کو مسترد کرتے ہیں، سعید غنی

انہوں نے کہا کہ بعض وفاقی وزراء کی جانب سے دیے جانے والے مخالفانہ بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت آئین کے مطابق تحریک عدم اعتماد کو پرامن طریقے سے نمٹانے کے خلاف غیر آئینی اقدامات کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کا پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر بڑی ریلی نکالنے اور پارٹی کے حامیوں کو منحرف قانون سازوں کے گھروں پر حملے کے لیے اکسانے کا منصوبہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ اس کے پاس اپنی حکمرانی کو جاری رکھنے کے لیے قومی اسمبلی میں 172 قانون سازوں کی مطلوبہ تعداد نہیں ہے۔

سعید غنی کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کو ایسی منصوبہ بندی کا سہارا نہیں لینا پڑتا اگر اسے یقین ہوتا کہ اس کے پاس اسمبلی میں ایم این ایز کی مطلوبہ تعداد میسر ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں