صدر عارف علوی نے گورنر پنجاب کی برطرفی کیلئے وزیراعظم کی ایڈوائس یکسر مسترد کردی

اپ ڈیٹ 09 مئ 2022
وزیراعظم کی تجویز مسترد کرتے ہوئے صدر نے کہا کہ گورنر پنجاب کو ہٹانے کی کوئی وجہ نہیں ہے—فوٹو: ڈان نیوز/اے ایف پی
وزیراعظم کی تجویز مسترد کرتے ہوئے صدر نے کہا کہ گورنر پنجاب کو ہٹانے کی کوئی وجہ نہیں ہے—فوٹو: ڈان نیوز/اے ایف پی

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کی برطرفی کے لیے دی گئی وزیراعظم شہباز شریف کی ایڈوائس یکسر مسترد کردی۔

ایوان صدر سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ صدر ڈاکٹر عارف علوی نے وزیراعظم پاکستان کو آگاہ کیا ہے کہ گورنر پنجاب کو ان کی منظوری کے بغیر نہیں ہٹایا جاسکتا۔

یہ بھی پڑھیں: گورنر پنجاب کی برطرفی تک صوبائی کابینہ کی تشکیل روکنے کا فیصلہ

انہوں نے آئین کے آرٹیکل 101 کی شق 3 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ گورنر کو صدرمملکت کی حمایت کے دوران اپنی خدمات جاری رکھنی چاہیئں۔

صدر مملکت نے لکھا کہ گورنر پنجاب کو برطرف نہیں کیا جاسکتا جیسا کہ ان پر نہ تو قواعد کی خلاف ورزی، نہ ہی کسی عدالت سے سزا یا آئین پاکستان کے برخلاف کسی اقدام کا الزام لگایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بطور سربراہ مملکت یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 41 کے تحت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اتحاد کی نمائندگی کریں۔

گورنر پنجاب کے آئینی کردار کو اجاگر کرتے ہوئے صدر مملکت نے بتایا کہ گورنر نے اس سے قبل پنجاب اسمبلی میں پیش آنے والے بدقسمت واقعے کے حوالے سے رپورٹ بھیجی تھی۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے استعفے اور وفاداریاں تبدیل کرنے کے حوالے سے سوالات ہیں۔

مزید پڑھیں: جعلی وزیراعلیٰ پنجاب کی تقریب حلف برداری بھی جعلی ہے، گورنر پنجاب

صدر مملکت نے وزیراعظم کی تجویز مسترد کرتے ہوئے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ گورنر کو ہٹانا نامناسب اور انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے۔

انہوں نے زور دیا کہ صحت مندانہ اور شفاف جمہوری نظام کی حوصلہ افزائی اور فروغ کے لیے موجودہ گورنر کا رہنا ضروری ہے جہاں اراکین پر زبردستی یا غیرقانونی تبدیلی نہیں لائی جائے اور آئین کا آرٹیکل 63 اے واضح طور پر اس طرح کی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔

صدرمملکت نے مزید کہا کہ وہ اس مشکل وقت میں آئین پاکستان کے مطابق چلنے کے لیے پرعزم اور گورنرپنجاب کی برطرفی کے لیے وزیراعظم کی تجویز یکسر مسترد کر رہا ہوں۔

اس سے قبل وفاقی وزیرداخلہ رانا ثنااللہ نے کہا تھا کہ صدر مملکت پابند ہیں کہ وہ وزیراعظم کی تجویز پر عمل کریں اور اس سے انکار غیرآئینی ہوگا۔

انہوں نے کہا تھا کہ پارلیمانی جمہوریت میں صدارت ایک علامتی دفتر ہے اور ویٹو کے اختیارات حاصل نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایوان صدر پی ٹی آئی کا سیکریٹریٹ نہیں ہے اور عمران خان کے غلام بننے کے بجائے آئین کی پاسداری کریں۔

واضح رہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کی برطرفی کی سمری 16 اپریل کو صدر عارف علوی کو ارسال کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: گورنر پنجاب نے نومنتخب وزیر اعلیٰ کی تقریب حلف برداری مؤخر کردی

اس کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما حمزہ شہباز کے وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد نئی صوبائی کابینہ کی تشکیل موجودہ گورنر عمر سرفراز چیمہ کی برطرفی تک مؤخر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنما نے دلیل دی تھی کہ ان کی جماعت پنجاب کی نئی کابینہ کے حلف برداری کے معاملے کو حمزہ کی طرح عدالت میں لے کر ہیں جانا چاہتی اور حکمران اتحاد کے اپنے گورنر کے چارج سنبھالتے تک 10 دن یا اس سے زیادہ انتظار کر سکتا ہے۔

آئین کے مطابق صدر، وزیراعظم کی طرف سے بھیجی گئی سمری کو 14 دن تک بغیر کسی فیصلے کے روک سکتے ہیں تاہم مدت ختم ہونے پر وزیر اعظم اس سلسلے میں اپنے مشورے کی دوبارہ توثیق کر سکتے ہیں اور صدر اپنا فیصلہ مزید 10 دن تک روک سکتے ہیں۔

تاہم مزید 10 روز کی مدت کے بعد گورنر کو ہٹا دیا جائے گا اور وزیر اعظم کو نیا گورنر مقرر کرنے کا اختیار ہوگا۔

حکمران جماعت کے رہنما نے وضاحت کی تھی کہ مئی کے دوسرے ہفتے میں عمر سرفراز چیمہ گورنر کے عہدے پر مزید براجمان نہیں رہیں گے، جس کے بعد پنجاب کی نئی کابینہ حلف اٹھائے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں