گورنر پنجاب نے نومنتخب وزیر اعلیٰ کی تقریب حلف برداری مؤخر کردی

اپ ڈیٹ 17 اپريل 2022
انہوں نے کہا کہ ذمہ داران کو بھی دیکھنا چاہیے کہ حالات کس جانب جارہے ہیں —فوٹو : ڈان نیوز
انہوں نے کہا کہ ذمہ داران کو بھی دیکھنا چاہیے کہ حالات کس جانب جارہے ہیں —فوٹو : ڈان نیوز

گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے نومنتخب وزیر اعلیٰ پنجاب کی تقریب حلف برداری مؤخر کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک یہ عہدہ میرے پاس ہے اس وقت تک میں کسی غیر آئینی اقدام کی توثیق نہیں کروں گا اور نہ ہی خود کوئی غیر آئینی اقدام اٹھاؤں گا۔

گورنر ہاؤس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمر سرفراز چیمہ کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے ڈپٹی اسپیکر کو کل وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے صاف اور شفاف انداز میں ووٹنگ کروانے کی ہدایت کی گئی تھی، کل جس طرح ہنگامہ آرائی اور اراکین اسمبلی پر تشدد ہوا ہے وہ انتہائی شرمناک اور افسوسناک ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسی جماعت کے چیلوں نے 2 روز قبل افواج پاکستان کے ایک افسر کے ساتھ بدمعاشی کی، کل پارلیمنٹ پر ریاستی طاقت کا جس طرح استعمال کیا گیا اس کی مذمت کی جانی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: حمزہ شہباز 197 ووٹ حاصل کرکے پنجاب کے وزیراعلیٰ منتخب

گورنر پنجاب نے کہا کہ ذمہ داران کو بھی دیکھنا چاہیے کہ حالات کس جانب جارہے ہیں اور کن لوگوں کے ہاتھوں میں اقتدار دیا جارہا ہے۔

عمر سرفراز چیمہ نے کہا کہ کل جس طرح الیکشن لڑا گیا اس سے انتہائی غلط مثال قائم ہوگی، اگر واقعی حمزہ شہباز کے پاس اپنی حمایت میں مطلوبہ تعداد موجود تھی تو الیکشن اس طرح متنازع بنانے کی ضرورت نہیں تھی۔

انہوں نے کہا کہ اسمبلی سیکریٹری سے کل کے واقعے کی رپورٹ منگوالی ہے جو میڈیا کے ساتھ شیئر کی جائے گی، آپ خود پڑھ کر بتائیں کہ کیا یہ الیکشن لاہور ہائی کورٹ کی ہدایات کے مطابق منعقد کیا گیا؟ کیا ہم اسے شفاف الیکشن کہہ سکتے ہیں؟

مزید پڑھیں: پنجاب کے نومنتخب وزیراعلیٰ کون ہیں؟

ان کا کہنا تھا کہ سیکریٹری اسمبلی کی رپورٹ سامنے رکھتے ہوئے میں نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور اسپیکر پنجاب اسمبلی کو لکھ کر ان سے رائے مانگی ہے، کیونکہ میں اس آئینی عہدے پر بیٹھ کر کسی غیر آئینی اقدام کی توثیق نہیں کر سکتا۔

عمر سرفراز چیمہ نے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کی حلف برداری کی کارروائی اس وقت تک آگے نہیں بڑھے گی جب تک ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رائے نہیں آجاتی اور میں مطمئن نہ ہوجاؤں کہ وزیر اعلیٰ کا انتخاب آئین اور عدالت کے احکامات کے مطابق کیا گیا۔

آج رات کو ہونے والی حلف برداری کی تقریب سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ تقریب فی الحال مؤخر ہوگئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مسلم لیگ (ق) کی درخواستیں خارج، ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کے اختیارات برقرار

عہدے سے برطرف کیے جانے کی اطلاعات سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کے پاس اس طرح کے کوئی صوابدیدی اختیارات نہیں ہیں، وہ صدر کو ایک سمری بھیجتے ہیں، جب تک صدر پاکستان اس کو نوٹیفائی نہیں کرتے تب تک میں اس عہدے پر برقرار ہوں۔

ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری پر حملے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ کچھ نوجوان ارکان پارلیمنٹ کا فطری ردعمل تھا کیونکہ انہوں نے دیکھا کہ جس شخص کو انہوں نے اعتماد کو ووٹ دیا اس نے عین وقت پر ان کی پیٹھ پر چھرا گھونپ دیا۔

گورنر پنجاب نے کہا کہ جب تک یہ عہدہ میرے پاس ہے اس وقت تک میں کسی غیر آئینی اقدام کی توثیق نہیں کروں گا اور نہ ہی خود کوئی غیر آئینی اقدام اٹھاؤں گا۔

انہوں نے کہا کہ اب قوم نے فیصلہ کرنا ہے کہ کن لوگوں کے ہاتھ میں ایک سازش کے تحت اقتدار دیا جارہا ہے، ان لوگوں کی تاریخ میمو گیٹ اور ڈان لیکس سے بھری پڑی ہے، یہ ہاتھ آج ہم پر اٹھ رہے ہیں لیکن میں واضح کردوں کہ ان کے شر سے کوئی بچنے والا نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب اسمبلی میں ہنگامہ آرائی، مقدمے کے اندراج کیلئے پرویزالہٰی کی درخواست

واضح رہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے لیے صوبائی اسمبلی میں گزشتہ روز صبح ساڑھے 11 بجے ہونے والا اجلاس باقاعدہ آغاز سے قبل ہی ہنگامہ آرائی کی نذر ہوگیا تھا جب اراکین اسمبلی ایوان میں لوٹے لے کر پہنچ گئے، منحرف اراکین کے خلاف نعرے بازی کی اور ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جس کے بعد ڈپٹی اسپیکر کو سخت سیکیورٹی میں ایوان سے باہر لے جایا گیا۔

دریں اثنا حکومت اور اپوزیشن اراکین کے درمیان ہاتھا پائی بھی شروع ہوگئی، صورتحال پر قابو پانے کے لیے ایس ایس پی آپریشنز کے ہمراہ پنجاب پولیس کی بھاری نفری پنجاب اسمبلی پہنچ گئی۔

وزارت اعلیٰ کے امیدوار چوہدری پرویز الہٰی بھی ہنگامہ آرائی کی زد میں آگئے اور تشدد سے زخمی ہوگئے جنہیں ایوان سے باہر لے جایا گیا۔

ساڑھے 5 گھنٹے بعد ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری دوبارہ اسمبلی پہنچے اور شدید ہنگامہ آرائی اور نعرے بازی کے دوران ووٹنگ شروع کرنے کے اعلان کیا، جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ق) اور پی ٹی آئی نے ووٹنگ کے عمل کا بائیکاٹ کرتے ہوئے واک آؤٹ کیا لیکن ووٹنگ کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔۔

ڈپٹی اسپیکر نے ووٹنگ کے بعد اعلان کیا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے نائب صدر حمزہ شہباز کو 197 ووٹ ملے اور وہ وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوگئے ہیں۔

جس کے بعد ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے حمزہ شہباز کی جیت کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں