بھارتی سپریم کورٹ نے گیانواپی مسجد میں بڑے اجتماع پر عائد پابندی ختم کردی

اپ ڈیٹ 18 مئ 2022
اترپردیش کی مقامی عدالت نے مسلمانوں کو مسجد میں نمازیوں کی تعداد کم کرنے کا حکم دیا تھا—فائل/فوٹو: رائٹرز
اترپردیش کی مقامی عدالت نے مسلمانوں کو مسجد میں نمازیوں کی تعداد کم کرنے کا حکم دیا تھا—فائل/فوٹو: رائٹرز

بھارت کی عدالت عظمیٰ نے شمالی بھارت کی تاریخی گیانواپی مسجد میں مقامی عدالت کی جانب سے مسلمانوں کے لیے بڑی تعداد میں جمع ہونے پر عائد کی گئی پابندی ختم کردی۔

خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ نے عارضی حکم نامے میں کہا کہ مسلمانوں کے نماز پڑھنے کے حق پر خلل نہیں ڈالنا چاہیے اور جہاں پر ہندوؤں کی نشانیاں ملنے کی اطلاع ہے، وہ مقام محفوظ ہونا چاہیے۔

مزید پڑھیں: بھارت: ہندو نشانیاں سامنے آنے کے بعد مسلمانوں کو مسجد میں محدود اجتماع کا حکم

مسجد میں عبادت پر اختلاف ہندو انتہاپسند کارکنوں کی جانب سے دہائیوں سے جاری اس مہم کا حصہ ہے، جس میں ان کا مؤقف ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی جانب سے تعمیر کردہ اہم عمارتیں تاریخی مقدس مقامات پر بنائی گئی ہیں۔

بھارت میں 30 برس قبل اسی بنیاد پر بدترین مذہبی فسادات ہوئے تھے۔

بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے مسجد میں نماز ادا کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ ہندوؤں کے مقدس شہر اور تاریخی گیانواپی مسجد کا مقام واراناسی (بنارس) کی عدالت کے اس حکم کے ایک بعد سامنے آیا ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ مسلمانوں کو مسجد میں تعداد 20 افراد تک محدود کرنی چاہیے۔

عدالت نے حکم دیا تھا کہ جین مت کی نمائندگی کرنے والی 5 خواتین کی جانب سے مسجد میں کیے گئے سروے کے بعد مسجد کے ایک حصے میں ہندوؤں کو عبادت کی اجازت دی جائے۔

گیانواپی مسجد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے حلقے میں واقعے ہے جو شمالی ریاست اترپردیش میں واقع کئی مساجد میں سے ایک ہے، جن کے بارے میں سخت گیر ہندووں کا ماننا ہے کہ ہندو کے مندر گرا کر مسجد تعمیر کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: بابری مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کی نگرانی کیلئے ٹرسٹ بنا دیا گیا، مودی

رپورٹ کے مطابق سخت گیر ہندووں کا دیگر مذہبی مقامات کے بارے میں ایسا ہی عمومی خیال ہے۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے منسلک گروپس کی جانب سے چند مساجد کے اندر کھدائی اور تاج محل کے اندر تلاشی کی اجازت کا مطالبہ کیا جاچکا ہے۔

سپریم کورٹ کا بینچ ہندووں اور مسلمانوں کی درخواست پر رواں ہفتے سماعت جاری رکھیں گے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ بھارت میں بسنے والے 20 کروڑ سے زائد مسلمانوں کے رہماؤں کا خیال ہے کہ یہ اقدامات بی جے پی کے منصوبوں کے ساتھ آزادی سے عبادت کرنے اور مذہبی آزادی کے حق کو سلب کرنے کی کوشش ہے۔

تاہم بی جے پی نے مسلمانوں سمیت اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا تاثر رد کرتے ہوئے کہا کہ وہ ترقی کی بنیاد پر تبدیلی کے خواہاں، جس سے بھارت کے تمام شہریوں کو فائدہ ملے۔

یاد رہے کہ 2019 میں بھارت کے سپریم کورٹ نے 16 ویں صدی میں تعمیر ہونے والے مشہور بابری مسجد کی جگہ پر ہندووں کو مندر تعمیر کرنے کی اجازت دی تھی۔ بابری مسجد کو 1992 میں ہندو مظاہرین نے شہید کردیا تھا، جن کا دعویٰ تھا کہ مسجد کو ہندو لارڈ رام کی جائے پیدائش پر تعمیر کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: مسلمانوں کے خلاف پرتشدد واقعات کی تحقیقات کرنے والے دو وکلا کیخلاف مقدمہ درج

اس واقعے کے بعد بھارت بھر میں مذہبی فسادات ہوئے تھے اور 2ہزار افراد جان سے گئے تھے، جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔

مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے 1992 میں ایک مہم شروع کی تھی جس کا مقصد رام مندر کی تعمیر تھا جو ان کے بقول بابری مسجد کی شہادت سے قبل شروع کی گئی تھی۔

بعد ازاں جب نریندر مودی 2002 میں بھارتی ریاست گجرات کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے تو ایودھیہ سے آنے والی ریل میں آگ لگنے کے باعث 59 ہندو ہلاک ہوئے تھے جس کے بعد فسادات میں ایک ہزار سے زائد افراد کو بے دردی سے مارا گیا تھا جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں