کراچی والوں کیلئے بجلی کے نرخوں میں 4.83 روپے فی یونٹ کا اضافہ

اپ ڈیٹ 28 مئ 2022
کے الیکٹرک نے 5.275 روپے فی یونٹ ایف سی اے کا مطالبہ کیا تھا—فوٹو: اے ایف پی
کے الیکٹرک نے 5.275 روپے فی یونٹ ایف سی اے کا مطالبہ کیا تھا—فوٹو: اے ایف پی

نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے کے-الیکٹرک کے لیے بجلی کی قیمت میں 4.83 روپے فی یونٹ اضافی فیول لاگت ایڈجسٹمنٹ (ایف سی اے) کا نوٹیفکیشن جاری کردیا جو صارفین سے مارچ میں استعمال کی گئی بجلی کی مد میں وصول کیے جائیں گے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس سے کے-الیکٹرک کو جون کے آنے والے بلنگ مہینے میں صارفین سے 7 ارب 86 کروڑ روپے کی اضافی رقم حاصل کرنے میں مدد ملے گی، نیپرا نے کہا کہ ایف سی اے کا اطلاق لائف لائن صارفین کے سوا تمام صارفین پر ہوگا۔

کے الیکٹرک نے 8 ارب 60 کروڑ روپے کے ریونیو اثر کے ساتھ 5.275 روپے فی یونٹ ایف سی اے کا مطالبہ کیا تھا لیکن نیپرا نے پایا کہ وہ نیشنل گرڈ سے بجلی کی خریداری کے لیے اپنی توانائی کی لاگت 9.39 روپے فی یونٹ کا مطالبہ کر رہا ہے جو کہ حقیقت میں 22 کروڑ 50 لاکھ روپے کے خالص اثر کے ساتھ منظور شدہ نرخوں کے تحت 9.1 روپے فی یونٹ پر ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کے الیکٹرک صارفین کیلئے بجلی 2 روپے 90 پیسے فی یونٹ مہنگی

اسی طرح نیپرا نے گل احمد اور ٹپال کے 2 آزاد پاور پلانٹس کے ایندھن کی قیمتوں کے حساب سے جائز قیمت سے 60 لاکھ روپے زیادہ پائے، نیپرا نے نئے پورٹ قاسم پلانٹ-3 کی جانچ کے دوران توانائی کی لاگت کی وجہ سے کے-الیکٹرک کے دعووں کو بھی یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ اس نے پہلے ہی اس طرح کے معاوضے کی اجازت دے دی ہے جو کہ اس کے کثیر سالہ ٹیرف میں پہلے سے ہی رکھا گیا تھا اس لیے 49 کروڑ 70 لاکھ روپے کی ایک اور اجازت نہیں دی گئی۔

ان نامنظوریوں کی بنیاد پر نیپرا نے کے الیکٹرک کی جانب سے مانگے گئے 5.275 روپے فی یونٹ (8 ارب 60 کروڑ روپے) کی بجائے 4.83 روپے فی یونٹ 7 ارب 86 کروڑ روپے ایف سی اے کی منظوری دی گئی۔

نیپرا نے یہ بھی یاد دہانی کروائی کہ نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) اور کے-الیکٹرک کے درمیان 26 جنوری 2010 کو 5 سال کے لیے باسکٹ ریٹ پر 650 میگاواٹ بجلی کی فروخت/خریداری کے لیے معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے۔

بعدازاں مشترکہ مفادات کی کونسل (سی سی آئی) نے 8 نومبر 2012 کو کے الیکٹرک کے ذریعے این ٹی ڈی سی سے 300 میگاواٹ بجلی واپس لینے کا فیصلہ کیا، سی سی آئی کے فیصلے کو سندھ ہائی کورٹ میں کے-الیکٹرک کے دعووں کی بنیاد پر کالعدم قرار دے دیا گیا تھا اور آج تک کسی نئے معاہدے پر دستخط نہیں کیے گئے جبکہ کے-الیکٹرک بغیر کسی معاہدے کے نیشنل گرڈ سے توانائی نکالنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے جو اس وقت تقریباً 1100 میگاواٹ ہے۔

مزید پڑھیں: کے الیکٹرک صارفین کیلئے بجلی 2 روپے 59 پیسے فی یونٹ سستی ہونے کا امکان

کے-الیکٹرک نے پہلے صارفین سے 7 ارب 95 کروڑ روپے حاصل کرنے کے لیے مارچ کے لیے ایف سی اے میں 4.89 روپے فی یونٹ اضافہ طلب کیا تھا لیکن بعد میں 8 ارب 60 کروڑ روپے کے محصولات کے اثرات کے ساتھ اس کی ڈیمانڈ کو 5.27 روپے فی یونٹ کر دیا۔

کے-الیکٹرک نے کہا کہ یہ اضافہ نیشنل گرڈ کے زیادہ ٹیرف اور اس کی اپنی بجلی کی پیداوار کے لیے آر ایل این جی کی لاگت کی وجہ سے ہوا ہے، اس نے دعویٰ کیا کہ ریفرنس فیول کی زیادہ لاگت بنیادی طور پر فرنس آئل اور ایل این جی کی قیمتوں میں بالترتیب 10 اور 40 فیصد اضافے کے علاوہ نیشنل گرڈ سے بجلی کی فراہمی کی قیمت میں 9 فیصد اضافے کی وجہ سے تھی۔

ٹیرف میکانزم کے تحت ایندھن کی لاگت میں تبدیلی صرف ماہانہ بنیادوں پر خودکار طریقہ کار کے ذریعے صارفین تک پہنچائی جاتی ہے جبکہ بجلی کی خریداری کی قیمت، صلاحیت کے چارجز، متغیر آپریشن اور دیکھ بھال کے اخراجات، سسٹم چارجز کا استعمال اور ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے نقصانات کے اثرات وفاقی حکومت کی جانب سے بنیادی ٹیرف میں بنائے جاتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں