تیل کی درآمدات کو زرِ مبادلہ کی کمی جیسی مشکلات کا سامنا

31 مئ 2022
حکومت کو مرکزی بینک سے قرض لینے کے لیے ایک مرتبہ کی چھوٹ بھی حاصل کرنی پڑ سکتی ہے—فائل فوٹو:رائٹرز
حکومت کو مرکزی بینک سے قرض لینے کے لیے ایک مرتبہ کی چھوٹ بھی حاصل کرنی پڑ سکتی ہے—فائل فوٹو:رائٹرز

تیل کی صنعت کو اب خام اور تیل کی مصنوعات کی درآمد کے لیے بین الاقوامی مالیات کا بندوبست کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق باخبر ذرائع نے بتایا کہ پیٹرولیم ڈویژن نے وزیراعظم اور وزیر خزانہ کو آگاہ کیا تھا کہ تیل کی درآمدات کے انتظامات دن بدن مشکل ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ غیر ملکی بینک آئل مارکیٹنگ کمپنیوں (او ایم سیز) اور ریفائنریز کے مقامی بینکوں کے ساتھ کھولے گئے لیٹر آف کریڈٹ (ایل سیز) کے خلاف فنانسنگ فراہم نہیں کر رہے ہیں۔

ایک سینئر عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ دو بڑی کارپوریشنز، پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) اور پاک عرب ریفائنری لمیٹڈ (پارکو) کے علاوہ تمام او ایم سیز اور ریفائنریز پیٹرولیم مصنوعات اور خام تیل کی درآمد کا بندوبست کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں:خام تیل، ایچ ایس ڈی کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی کے خاتمے کا امکان

ذرائع نے بتایا کہ سائز اور پروڈکٹ کے لحاظ سے 5 کروڑ سے ساڑھے 7 کروڑ (تقریباً ساڑھے 3 سو سے 500 ڈالر فی کارگو) مالیت کے تقریباً 6 سے 7 کارگو مشکل مالی صورتحال اور غیر ملکی زرمبادلہ کے بارے میں متعلقہ وزارتوں کے کچھ تنقیدی بیانات کے بعد بڑھتے ہوئے خطرے کی وجہ سے اس وقت روکے گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی بینکس آئل انڈسٹری کی جانب سے لیٹر آف کریڈٹس کھول رہے ہیں لیکن ان کے پارٹنر بینکس کریڈٹ کور میں توسیع نہیں کر رہے ہیں۔

پیٹرولیم ڈویژن کی جانب سے وزیراعظم آفس اور وزیر خزانہ کو بھیجی گئی تیل کی صنعت کی رپورٹ میں کہا گیا کہ 'بدقسمتی سے 'اب ملک کی ایندھن کی فراہمی کو بھی محدود کریڈٹ سہولیات، بلند افراط زر، روپے اور ڈالر کے بڑھتے ہوئے فرق کی وجہ سے شدید خطرات لاحق ہیں'۔

مزید پڑھیں:خام تیل کی قیمت 2014 کے بعد پہلی بار 110 ڈالر سے اوپر چلی گئی

آئل انڈسٹری نے حکومت کو بتایا ہے کہ اس مالی پریشانی نے صنعت کو انتہائی کمزور اور نازک بنا دیا ہے جس کے نتیجے میں 'سپلائی چین ٹوٹ سکتی ہے'۔

آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل نے پیٹرولیم اور خزانہ کی وزارتوں کو اطلاع دی کہ 'تشویش کے دو اہداف والے معاملوں میں فوری تدارک کے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جس میں سے ایک تیل کی درآمدات کے لیے لیٹر آف کریڈٹ کی تصدیق کرنے میں بین الاقوامی بینکوں کی ہچکچاہٹ اور دوسرا قیمت کے فرق کے دعووں کی بروقت ترسیل ہے۔

یہ صورت حال ریفائنرز اور او ایم سی دونوں پر اثر انداز ہو رہی ہے اور اس لیے نیچے دھارے میں آنے والا تیل کا شعبہ ملک کو درپیش سپلائی میں رکاوٹ کو روکنے کے لیے اعلیٰ سطح پر مداخلت کی کوشش کر رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت میں 12 فیصد کمی

ذرائع نے بتایا کہ وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو غیر ملکی کرنسی 50 کروڑ سے ایک ارب ڈالر کی خصوصی رقم مختص کر کے بین الاقوامی شراکت دار بینکوں کے ساتھ اپنا دفتر استعمال کرنا ہوگا۔

ذرائع نے بتایا کہ حکومت کو مرکزی بینک سے قرض لینے کے لیے ایک مرتبہ کی چھوٹ بھی حاصل کرنی پڑ سکتی ہے۔

یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ 27 مئی سے تمام مصنوعات کی قیمتوں میں 30 روپے فی لیٹر کا اضافہ کیا گیا ہے، لیکن پی ڈی سی (قیمت کے فرق کے دعوے) کی رقم میں زبردست کمی نہیں آئی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پیٹرولیم ڈویژن نے مئی کے دوسرے نصف حصے کے لیے 72 ارب روپے کی ضمنی گرانٹ کی منظوری کی سمری بھیجی تھی لیکن قیمت میں 30 روپے فی لیٹر اضافے کی وجہ سے اسے کم کر کے 62 ارب روپے کر دیا گیا تھا۔

جس کے بعد اس گرانٹ کی منظوری گزشتہ ہفتے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے دی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں