چوہدری شجاعت کا پرویز الہٰی سے اختلاف برقرار، (ن) لیگ سے اتحاد جاری رکھنے کی یقین دہانی

اپ ڈیٹ 07 جون 2022
مسلم لیگ (ق) کے سالک حسین اور جماعت کے ایک اور ایم این اے طارق بشیر چیمہ شہباز شریف کی کابینہ میں شامل ہیں — فائل فوٹو: ٹوئٹر
مسلم لیگ (ق) کے سالک حسین اور جماعت کے ایک اور ایم این اے طارق بشیر چیمہ شہباز شریف کی کابینہ میں شامل ہیں — فائل فوٹو: ٹوئٹر

گجرات کے چوہدری برادران کو ایک صف میں لانے کی کوششیں اب تک ثمر آور ثابت نہیں ہوسکیں اور مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین کے صاحبزادوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ شریف برادران کی جماعت کے ساتھ اپنا اتحاد برقرار رکھیں گے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چوہدری شجاعت کے صاحبزادے و وفاقی وزیر سالک حسین اور شافع حسین نے وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز سے ان کے دفتر میں ملاقات کی اور اعلان کیا کہ ان کی ’مکمل حمایت‘ مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت حکومت کے ساتھ ہے۔

چوہدری شجاعت کے بیٹوں نے ایک بار پھر یقین دہانی کروائی کہ ان کا سیاسی اتحاد مستقبل میں بھی قائم رہے گا۔

اس موقع پر حمزہ شہباز نے چوہدری شجاعت کی صحت دریافت کی اور ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

دریں اثنا چوہدری پرویز الہٰی نے دوسری راہ کا تعین کیا تھا اور انہوں نے شریف برادران کی وزارت اعلیٰ پنجاب کی پیش کش ٹھکراتے ہوئے عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حمایت کی تھی۔

مزید پڑھیں: اپوزیشن کی کوشش ناکام بنانے کیلئے وزیراعظم کی چوہدری برادران سے ملاقات

تاہم اس کے برعکس مسلم لیگ (ق) کے صدر کے صاحبزادے سالک حسین اور جماعت کے ایک اور ایم این اے طارق بشیر چیمہ شہباز شریف کی کابینہ میں شامل ہیں۔

قبل ازیں وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے دعویٰ کیا تھا کہ عمران خان کی کابینہ کا حصہ مونس الہٰی شریف خاندان اور مسلم لیگ (ق) کے درمیان کی ڈیل میں ناکامی کے ذمہ دار ہیں کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ مشکل وقت میں ان کا خاندان عمران خان کی حمایت کرے۔

انہوں نے کہا کہ یہاں تک کہ شہباز شریف نے کہا تھا کہ وہ پرویز الہٰی کو وزیر اعلیٰ پنجاب دیکھنا چاہتے ہیں لیکن پھر بھی بات نہیں بنی۔

حمزہ شہباز، سالک حسین اور شافع حسین کی ملاقات کو مسلم لیگ (ن) کی جاری کوششوں کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ اگر بدلتے ہوئے سیاسی منظر نامے میں شہباز حکومت کو ہٹانے کے لیے 'کچھ حلقوں' کی جانب سے کوئی منصوبہ بنایا گیا ہے تو مسلم لیگ (ق) کے شجاعت کیمپ اور بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) سمیت تمام 'مشکوک' اتحادیوں پر نظر رکھی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: چوہدری برادران کے خلاف انکوائری بند کرنے کی درخواست پر نیب کو جواب جمع کرانے کی ہدایت

مرکز میں موجود 9 جماعتوں کی اتحادی حکومت دو ووٹوں کی اکثریت سے قائم ہے، مونس الہٰی اور شیخ رشید دونوں نے پیش گوئی کی ہے یہ اتحاد جلد اپنی اکثریت کھو بیٹھے گا۔

قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ جب طاقتور حلقے نئے انتخابات کا ’فیصلہ‘ کریں گے تو صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی وزیر اعظم شہباز شریف سے اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتے ہیں۔

پیش رفت سے باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی وزیر سالک حسین گجرات کے چوہدریوں کے درمیان اختلافات کو ختم کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ دکھائی دیتے ہیں، پرویز الہٰی کا دھڑا چاہتا ہے کہ چوہدری شجاعت کے صاحبزادے مسلم لیگ (ن) سے اپنی راہیں جدا کر کے عمران خان سے ہاتھ ملائیں۔

ان کا ماننا ہے کہ عمران خان کی مقبولیت بلندی پر ہے لیکن سالک اس کا اندازہ نہیں لگا پارہے ہیں۔

خیال رہے کہ مونس الہٰی شریف خاندان بالخصوص حمزہ شہباز کے مضبوط مخالف ہیں اور وہ حمزہ شہباز کو ’جعلی وزیر اعلیٰ‘ سمجھتے ہیں، ان کا ماننا ہے حمزہ شہباز کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا چاہیے یا 25 منحرف اراکین کی اکثریت کھونے کے بعد صوبائی اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب کا اعلان کرنا چاہیے۔

مزید پڑھیں: نیب کا چوہدری برادران کے خلاف ایک اور تحقیقات بند کرنے کا فیصلہ

مونس الہٰی کے چچا زاد بھائی اور سابق وفاقی وزیر وجاہت حسین کے بیٹے حسین الہٰی نے بھی پرویز الہٰی کیمپ میں رہنے کا انتخاب کیا ہے۔

ان کا بھی ماننا ہے کہ ایسے وقت میں جب عمران خان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت عروج پر ہے اور شریفوں کی 'ناقابل اعتماد تاریخ' کی وجہ سے مستقبل پی ٹی آئی کا ہو تو شریفوں کا ساتھ دینا غیر دانشمندانہ ہوگا۔

اگر چوہدری خاندان میں تقسیم برقرار رہی تو توقع ہے کہ آئندہ انتخاب میں چوہدری شجاعت کیمپ مسلم لیگ (ن) کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں