ہفتہ وار مہنگائی 3 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی

اپ ڈیٹ 12 جون 2022
سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ میں مہنگائی کی شرح 25 سے 30 فیصد کی جانب بڑھتی دیکھ رہا ہوں —فائل فوٹو: اے ایف پی
سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ میں مہنگائی کی شرح 25 سے 30 فیصد کی جانب بڑھتی دیکھ رہا ہوں —فائل فوٹو: اے ایف پی

ادارہ شماریات پاکستان (پی بی ایس) کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ توانائی اور خوراک کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے قیمتوں کے حساس اشاریے (ایس پی آئی) کے ذریعے پیمائش کردہ مہنگائی گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں 2.67 فیصد بڑھ گئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف کے توسیعی فنڈ سہولت پروگرام کو بحال کرنے کے لیے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کے پیش نظر ہفتہ وار مہنگائی میں اضافہ 144 ہفتوں یا 3 برسوں میں سب سے زیادہ ہے، ایس پی آئی میں سال بہ سال اضافہ زیر جائزہ ہفتے کے دوران 23.98 فیصد رہا۔

پیٹرول اور دیگر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 30 روپے فی لیٹر اضافے کے اثرات آئندہ ہفتے کے ایس پی آئی پیمائش میں مزید اضافے کے ساتھ نظر آئیں گے، حکومت کی جانب سے آئندہ ہفتے قیمتوں میں مزید اضافے کا امکان ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ہفتہ وار مہنگائی میں تین ماہ کے دوران سب سے زیادہ اضافہ

حکومت نے بجٹ میں پیٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس بحال کرنے کے ساتھ ساتھ مرحلہ وار پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی لگانے کا اعلان کیا ہے، علاوہ ازیں وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں ایندھن کی قیمتوں میں مزید اضافے کا عندیہ بھی دیا۔

مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ وہ سبسڈی دینے والے عناصر کم کرنے کے لیے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر رہے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ یہ پیسے میں نہیں لے رہا بلکہ حکومتی خزانے میں جمع ہو رہے ہیں، تاہم انہوں نے ان اقدامات کے نتیجے میں مہنگائی کے اثرات کا ذکر نہیں کیا۔

حکومت کی جانب سے مالی سال 2023 کے لیے 11.5 فیصد کا معمولی افراط زر کا سالانہ ہدف پیش کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں سالانہ بنیادوں پر مہنگائی میں 14.48 فیصد اضافہ

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر پر سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے ٹوئٹ کیا کہ ’میں مہنگائی کی شرح 25 سے 30 فیصد کی جانب بڑھتی دیکھ رہا ہوں، پی ڈی ایم ہم پر 12 فیصد کا الزام لگاتی تھی، وہ اب اس ملک کے غریب عوام کو کچل رہے ہیں، استعفیٰ دے کر نئے انتخابات کا مطالبہ کریں‘۔

شوکت ترین نے ایک بار پھر پی ڈی ایم حکومت کو یاد دہانی کروائی کہ تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے اثرات غریب صارفین تک پہنچانے کے بجائے حکومت کو ریفائنریوں کے مارجن کو کم کرنا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ رعایتی روسی تیل حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ٹارگٹڈ سبسڈیز پر منتقل ہونا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: اکتوبر میں مہنگائی کی شرح بڑھ کر 9.2 فیصد ہوگئی

اقتدار میں آنے کے فوراً بعد مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت مخلوط حکومت نے قیمتوں کی نگرانی کرنے والی کمیٹی کو تحلیل کر دیا جس کی قیادت وزیر خزانہ کر رہے تھے جبکہ صوبوں کی نمائندگی صوبائی چیف سیکریٹریز کرتے تھے۔

کمیٹی کا اجلاس ہر پیر کو اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر نظر رکھنے کے لیے ہوتا تھا، اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ زیر جائزہ ہفتے کے دوران 33 ضروری اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔

آلو کی قیمت میں 7.01 فیصد، ٹماٹر 6.15 فیصد، گھی فی کلو 3.62 فیصد، انڈے 3.30 فیصد، تازہ دودھ 2.51 فیصد، دال چنا 2.31 فیصد، 2.5 کلو گرام گھی اور دہی پر 2.02 فیصد، پیاز پر 1.96 فیصد، پکی دال پر 1.66 فیصد اور 5 لیٹر خوردنی تیل کی قیمتوں میں 1.45 فیصد اضافہ ہوا۔

مزید پڑھیں: مہنگائی کی شرح میں مسلسل چھٹے ہفتے اضافہ

نان فوڈ آئٹمز میں ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 17.18 فیصد، پیٹرول کی قیمت میں 16.61 فیصد اضافہ ہوا۔

دوسری جانب ہفتے کے دوران 5 اشیا کی قیمتوں میں کمی ہوئی جن میں چکن کی قیمت میں میں 10.53 فیصد کمی، لہسن 0.43 فیصد، گندم کا آٹا 0.22 فیصد، ایل پی جی 0.12 فیصد اور کیلے کی قیمت میں 0.07 فیصد کمی شامل ہیں۔

سب سے کم آمدنی والے گروپ (یعنی ماہانہ 17 ہزار 732 روپے سے کم کمانے والے افراد) کے لیے ایس پی آئی میں 1.72 فیصد اور 44 ہزار 175 روپے سے زائد کی ماہانہ آمدنی والے گروپ کے لیے 2.99 فیصد اضافہ ہوا۔

جن 51 اشیا کی قیمتوں کا سروے کیا گیا ان میں سے 33 اشیا کی قیمتوں میں اضافہ، 5 اشیا کی قیمتوں میں کمی جبکہ 13 اشیا کی قیمتیں مستحکم رہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں