غزہ میں بچوں کی اکثریت 15 سالہ ناکہ بندی کے باعث 'ذہنی دباؤ' کا شکار ہے، این جی او

15 جون 2022
اسرائیلی ناکہ بندی کی وجہ سے غزہ میں بچے ذہنی دباؤ کا شکار ہیں —فوٹو: اے ایف پی
اسرائیلی ناکہ بندی کی وجہ سے غزہ میں بچے ذہنی دباؤ کا شکار ہیں —فوٹو: اے ایف پی

غیر سرکاری تنظیم کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے فلسطینی سرزمین پر سخت ناکہ بندی کے 15 سال باعث غزہ کے ہر پانچ میں سے چار بچے ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ کی غیر سرکاری تنظیم (این جی او) ’سیو دی چلڈرن‘ نے کہا کہ غزہ میں بچے جذباتی پریشانی کا شکار ہیں۔

جب حماس تحریک کے جنگجوؤں نے گنجان آباد خطے پر قبضہ کیا تھا تو اسرائیل نے یہ ناکہ بندی جون 2007 میں نافذ کی تھی۔ اسرائیل اور مصر، لوگوں اور سامان کی آمد و رفت بھی سختی سے روکتے رہتے ہیں۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ بیت المقدس میں کشیدگی، اسرائیل کی غزہ پر بمباری

’ٹریپڈ‘ کے عنوان سے جاری رپورٹ میں برطانیہ میں قائم تنظیم نے کہا کہ غزہ کے بچوں کی ذہنی صحت مسلسل بگڑ رہی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2018 کے بعد سے ذہنی دباؤ، غم اور خوف کی علامات کی تعداد 55 فیصد سے بڑھ کر 80 فیصد ہو گئی ہے۔

سیو دی چلڈرن کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے ڈائریکٹر جیسن لی نے کہا کہ ہم نے جن بچوں سے اس رپورٹ کے لیے بات کی تو وہ خوف، پریشانی، اداسی اور غم کی مستقل حالت میں رہنے، تشدد کے آئندہ وقت کا انتظار کرتے نظر آئے اور سونے یا توجہ مرکوز کرنے سے محروم محسوس ہو رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ان بچوں کی تکلیف کے جسمانی ثبوت جیسا کے بستر بھیگنا، بولنے کی صلاحیت یا بنیادی کاموں کو مکمل نہ کرنا حیران کن ہے جس پر بین الاقوامی برادری کو ایک تشویشناک صورتحال کے طور پر کام کرنا چاہیے۔ غزہ کی 2 کروڑ 10 لاکھ آبادی کا تقریباً نصف بچے ہیں۔

سیو دی چلڈرن نے کہا کہ اس علاقے میں تقریباً 8 لاکھ نوجوان ایسے ہیں جنہوں نے ’ناکہ بندی کے بغیر زندگی کو کبھی نہیں دیکھا‘۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی فوج کا مسجد اقصیٰ پر دھاوا، سیکڑوں فلسطینی زخمی

کھلی فضا والی جیل

اسرائیل کا مؤقف ہے کہ حماس کی کارروائیوں سے اپنے شہریوں کو بچانے کے لیے یہ ناکہ بندی ضروری ہے۔

حماس ایک جنگجو گروہ ہے جسے مغربی ممالک نے دہشت گرد تنظیم کے طور پر بلیک لسٹ کیا ہوا ہے۔

اسرائیل 2007 سے حماس کے ساتھ چار جنگیں لڑ چکا ہے جس میں سے ایک جنگ حال ہی میں مئی 2021 میں ہوئی تھی۔

— فوٹو: اے ایف پی
— فوٹو: اے ایف پی

گزشتہ 12 ماہ کے دوران اسرائیل نے یہودی ریاست کے اندر بہتر معاوضے کی نوکریوں کی تلاش کرنے والے غزہ کے باشندوں کو مزید ورک پرمٹ دیے ہیں اور علاقے کے اندر اور باہر سامان کے آمد و رفت پر کچھ پابندیوں میں بھی نرمی کی ہے۔

تاہم ناکہ بندی وسیع پیمانے پر بدستور برقرار ہے، فلسطینیوں کو عام طور پر غزہ سے ایریز کراسنگ کے ذریعے اسرائیل جانے سے روک دیا جاتا ہے۔

غزہ کے رہائشیوں کو رفح کراسنگ کے ذریعے مصر جانے میں بھی بڑی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔

مزید پڑھیں: مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی فورسز کی فائرنگ، 3 فلسطینی جاں بحق

ہیومن رائٹس واچ نے ناکہ بندی کی سالگرہ کے موقع پر ایک بیان میں کہا کہ ’اسرائیل نے مصر کی مدد سے غزہ کو ایک کھلی فضا والی جیل میں تبدیل کردیا ہے۔

اسرائیل اور فلسطین کے لیے ہیومن رائٹس واچ کے ڈائریکٹر عمر شاکر نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ نوجوانوں کو ناکہ بندی کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ وہ ناکہ بندی سے پہلے غزہ کے بارے میں نہیں جانتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ان کو زبردستی محدود کر دیا گیا ہے اور انہیں دنیا کے ساتھ بات چیت اور مشغول ہونے کا موقع نہیں دیا جارہا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں