امریکا کا جوہری معاملے پر ایران کے ساتھ ’مسلسل، بلاواسطہ‘ رابطوں کا اعتراف

16 جون 2022
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ہم ایرانیوں کی طرف سے تعمیری جواب کے منتظر ہیں —فائل فوٹو: رائٹرز
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ہم ایرانیوں کی طرف سے تعمیری جواب کے منتظر ہیں —فائل فوٹو: رائٹرز

امریکا کے محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ صدر جو بائیڈن کی حکومت نے ایران سے بالواسطہ مسلسل روابط برقرار رکھے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ یہ روابط اس بات کا اشارہ ہیں کہ واشنگٹن کو تہران کی جانب سے طویل عرصے سے جاری جوہری تنازع کو حل کرنے کے لیے ایک نئی تجویز موصول ہوئی ہے۔

ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے کہا کہ تہران نے امریکا کو 2015 کا جوہری معاہدہ بحال کرنے کے لیے نئی تجویز پیش کی ہے۔

مزید پڑھیں: ایران کے اقدامات سے 'جوہری بحران' سنگین ہونے کا خطرہ ہے، امریکی وزیر خارجہ

ایران کے سرکاری ٹی وی کے مطابق ایران واشنگٹن سے اس بات کی ضمانت طلب کررہا ہے کہ امریکا میں انتظامی یا حکومتی تبدیلی اس معاہدے کو ختم نہیں کرے گی جو کہ جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن کے ساتھ ہوا، جس پر 2015 میں دستخط ہوئے تھے لیکن سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ نے 2018 میں اس معاہدے کو ختم کر دیا تھا۔

جب ایک نیوز بریفنگ میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس سے اس معاملے پر پوچھا گیا تو انہوں نے بغیر کوئی تفصیل بتائے کہا کہ واشنگٹن نے تہران سے روابط برقرار رکھے ہیں۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ہم یورپی یونین کے ذریعے باقاعدہ بلاواسطہ رابطے میں رہے ہیں اس لیے ہم اس سفارت کاری کے مخصوص پہلوؤں پر بات نہیں کریں گے سوائے یہ کہنے کے کہ یورپی یونین کے اینرک مورا نے روابط قائم کرنے کے درمیان اہم کردار ادا کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : دشمن ایران کو کمزور کرنے کے لیے احتجاج کو استعمال کررہے ہیں، خامنہ ای

انہوں نے کہا کہ ہم ایرانیوں کی طرف سے تعمیری جواب کے منتظر ہیں، ایسا جواب جو جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن کے لیے غیر ضروری مسائل سے ہٹ کر ہو، ان کا یہ بیان تہران کی جانب سے کچھ نئے مطالبات کے حوالے سے تھا جس میں اس کی سپاہ پاسداران انقلاب سے پابندیاں ہٹانا بھی شامل ہے۔

جب ترجمان سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا ایرانی اس یقین دہانی کا مطالبہ کررہے ہیں کہ مستقبل میں امریکی انتظامیہ دوسرے معاہدے کو بھی منسوخ نہیں کرے گی، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ اس بات پر ہم نے ایرانیوں کو بالکل واضح کر دیا ہے کہ ہمارا ارادہ جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن کی تعمیل کے لیے باہمی واپسی پر اثر انداز ہونا ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکا اس معاہدے پر اس وقت تک قائم رہے گا جب تک ایران اس کی پاسداری کرے گا کیونکہ اس کے سوا ہمارا کوئی مقصد نہیں ہو گا کہ ہم جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن کی تعمیل کی طرف باہمی واپسی کرسکیں۔

مزید پڑھیں: ایرانی جوہری معاہدے کی بحالی کے قریب پہنچ گئے ہیں، امریکا

صدر جو بائیڈن جو اس وقت نائب صدر تھے، انہوں نے جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن کو حتمی شکل دینے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان چین، فرانس، روس، برطانیہ، امریکا اور جرمنی نے یورپی یونین کے ساتھ مل کر مشترکہ طور پر اس معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

واشنگٹن 2018 میں نہ صرف اس معاہدے سے دستبردار ہوا تھا بلکہ ایران پر پھر سے پابندیاں عائد کردیں تھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں