اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔


بارسلونا سے اسلام آباد کی پرواز اترنے والی تھی۔ میں نے چائے پانی کی دکان کو تالا لگایا۔ سب عملہ مسافروں کے حفاظتی بند چیک کرتا ہوا واپس اپنی نشستوں کی طرف جا رہا تھا۔ میں نے اپنی طرف کی ‘Aisle’ سے گزرتے ہوئے جمپ سیٹ تک پہنچنے سے پہلے دیکھا کہ جہاز کی آخری نشست پر ایک 55 سے 60 سال کی عمر کے صاحب سو رہے ہیں۔ انہوں نے حفاظتی بند باندھ رکھا تھا لہٰذا میں مطمئن ہوکر اپنی نشست پر بیٹھ گیا۔ احتیاطاً ان کے ساتھ بیٹھے صاحب کو کہہ دیا کہ ممکن ہو تو ان کو اٹھا دیں تاکہ لینڈنگ کے وقت ان کو جھٹکا نہ لگے۔

پرواز اتری اور جہاز پارک ہوگیا۔ تمام مسافر اتر گئے۔ آخری چیک مکمل کرنے کی غرض سے میں نے جہاز کا چکر لگایا تو موصوف ابھی تک سو رہے تھے۔ ویسے تو ان کا اور میرا کوئی مذاق نہیں تھا لیکن پھر بھی میں نے کچھ لمحے انتظار کیا کہ شاید وہ اٹھ جائیں لیکن ایسا نہ ہوا۔

میں نے اس قابلِ رشک نیند پر دل میں خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے ان کا کندھا ہلایا تو ان کی گردن ایک طرف کو ڈھلک گئی۔ میں تو کھڑا تھا لیکن میرے آرام سے بیٹھے ہوئے رونگٹے بھی ایک دم ساتھ ہی کھڑے ہوگئے۔ ساری قتل کے معموں پر مبنی فلموں کے سین میری آنکھوں کے سامنے آگئے اور میں کچھ لمحوں کے لیے جم گیا۔ وہ تو شکر ہے ساتھ کھڑے ایک رونگٹے نے پھر میرا کندھا ہلایا اور اپنی تھوتھنی سے اس آدمی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا

ہوش کر ماما! ہن ایدا کی کرنا اے؟ (ہوش میں آؤ اب اس کا کیا کرنا ہے)

کمال ہے ویسے کہ لوگ ڈھلکے ہوئے آنچل کی باتیں کرتے ہیں اور میں ڈھلکی ہوئی گردن کے قصے لے کر بیٹھا ہوں۔ خیر میں نے فوراً ان صاحب کی شہ رگ پر ہاتھ رکھا اور زندگی کی رمق پاکر زمینی عملے کو اطلاع دی۔ جتنی دیر میں مدد آتی میں نے ان کو ہوش میں لانے کی اپنی سی کوششیں کرنی شروع کردیں کہ اچانک میری نظر نشست کے نیچے ایک چمکتی ہوئی چیز پر پڑی۔ جیسا کہ ایک مشہور مقولہ ہے کہ

ہر چمکتی ہوئی چیز سونا نہیں ہوتی اور ہر خوبصورت ڈارلنگ مونا نہیں ہوتی

چنانچہ غور کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ چیز اصل میں ایک مشروب غیر طہورا کا لیٹر پیک ہے۔ میرا دماغ گتھیاں سلجھا چکا تھا اور رونگٹے ناک بھوں چڑھا کر مجھے یہ کہتے ہوئے واپس بیٹھ گئے کہ

یار کے جے! ایس لئی سانوں کھڑا ہون دا کیا سی توں؟ (یار کے جے اس لیے ہمیں کھڑا ہوجانے کے لیے کہا تھا)

میں نے رونگٹوں سے معذرت کرکے ان کو تھپتھپایا یہاں تک کہ وہ پھر سو گئے اور وہ صاحب جو سو رہے تھے زمینی عملے کی مدد سے ان کو اٹھا کر جہاز سے نیچے اتارا گیا اور تمام عملے نے ہوٹل کی راہ لی۔

راہ کیا لینی تھی جیسے ہی ڈرائیور نے پارکنگ سے وین نکالنے کے لیے ریورس گیئر لگایا تو وین فوراً سجدہ ریز ہوگئی۔ ایک جھٹکا لگا اور تمام سواریاں خود کار نظام کے تحت آگے کو لڑھک گئیں۔ میں فوراً دروازہ کھول کر سکون سے باہر پاؤں رکھ کر وین سے ایسے نکل آیا جیسے اجے دیوگن فلموں میں گھومتی گاڑی سے نکل آتا ہے کیونکہ زمین اور وین کی سیٹ برابر آچکی تھیں۔

پتہ چلا کہ وین کے اگلے دونوں ٹائروں میں کرن ارجن کی طرح بھائی بندی میں دراڑ پڑگئی ہے جس کی وجہ سے ایکسل دلبرداشتہ ہوکر ٹوٹ گیا ہے۔

ہوٹل پہنچے تو ایک طویل انتظار کے بعد کمرہ ملا۔ وہ دن ہی بڑا بھاری تھا کم بخت۔ خیر کمرے میں پہنچ کر معمول کے مطابق سب سے پہلے بیڈ کے نیچے اور باتھ ٹب کے اندر کسی لاوارث لاش کی موجودگی چیک کی اور نہ پاکر عجیب تو لگا لیکن خیر، سکون کا سانس لیا۔ جیسا دن گزر رہا تھا اس حساب سے ایک لاش تو بنتی تھی۔

عملہ جہاز پر سب سے پہلے ہنگامی حالات میں استعمال ہونے والے آلات چیک کرتا ہے اور ہوٹل میں کمرہ ملنے کے بعد اس کی جانچ پڑتال۔ اس کے ساتھ ہنگامی حالات میں ہوٹل سے نکلنے کے لیے بھی ہنگامی اخراج کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے۔ آپ لوگ بھی کسی ہوٹل میں جائیں تو ہنگامی راستہ دیکھ بھال کر سویا کریں۔ خدا نہ کرے اگر آگ لگ جانے یا کسی اور صورتحال میں ہوٹل سے نکلنا پڑے تو آپ کو راستہ معلوم ہو۔

لیکن پھر وہی ہوا جس کا بالکل ڈر نہیں تھا۔ شاور سے لاش تو نہیں نکلی خیر لیکن پھر پانی بھی نہ نکلا۔ سیدھی ٹانگ گھٹنے تک کامیابی سے گیلی کر لینے کے بعد میں نے قدرت کے فیصلے پر سر تسلیم خم کرتے ہوئے فیس ٹاول سے ٹانگ پونچھ لی۔ ظاہر ہے بھئی ماحولیاتی آلودگیاں بھی تو کم کرنی ہیں نا۔ جب نہائے ہی نہیں تو بڑا تولیہ کس لیے خراب کرنا۔

ابھی شام ہونے میں کچھ دیر تھی۔ سوچا دن ختم ہوگا تو ہی منحوسیت ٹلے گی چنانچہ سوئمنگ پول جانے کا سوچا تاکہ گھٹنے سے اوپر کے جسم کو بھی گیلا ہونے کا موقع ملے۔ قوانین سے مطابقت رکھتے ہوئے جامہ مختصر زیب تن کیا اور بوڑھوں کی طرح پاؤں جما جما کر پول کی سیڑھیاں اترنے لگا کیونکہ دن خراب چل رہا تھا تو سوچا شرمندگی سے تو بچتا آیا ہوں کہیں پانی میں ہی ڈوب کہ نہ مرجاؤں۔

خیر غوطہ لگایا اور دوسری طرف پہنچ کر سر اٹھایا ہی تھا کہ بالوں کا وسیع گچھا تیرتے ہوئے نظروں کے سامنے آگیا۔ میں نے انتظامیہ میں سے کسی کو بلانے کے لیے نظریں دوڑائیں کہ کم بخت پول کی صفائی کا تو خیال رکھا کریں کہ اسی دوران اس بالوں کے گچھے میں سے سر نکلنا شروع ہوا اور پورا بندہ نکل آیا۔

جس طرح ٹرمینیٹر فلم کا ولن پارے سے بنا ہوتا ہے اور ٹرمینیٹر کی لات کھانے کے بعد

پارہ پارہ کر گئی مجھے ٹرمینیٹر کی یہ لات

کہتا ہوا واپس اپنی اصلی شکل میں آتا ہے بالکل اسی طرح بالوں کے اس گچھے میں ہلچل مچی اور بیچ میں سے بندہ نکل آیا۔ مشہور سائنسدان البرٹ آئنسٹائن نے صحیح کہا ہے کہ

بندے دا کوئی پتہ لگدا اے

خیر وہ گچھا، میرا مطلب بندہ پلٹا تو معلوم ہوا کہ وہ دوسری بیس (شہر) سے تعلق رکھنے والے ہمارے فضائی میزبان ساتھی ہی ہیں۔ اس دن مجھے مہنگے ہوٹل کے لمبے تالاب میں تیراکی کرتے ہوئے ادراک ہوا کہ ہمارے ہاں فضائی میزبانوں کو پوری آستین کی قمیض پہننا لازمی کیوں ہوتا ہے۔ عقل کی بات تو کبھی بھی ذہن میں آسکتی ہے۔

واپس کمرے میں آکر محسوس کیا کہ بھوک اس حد تک چمک چکی ہے کہ آنکھوں میں لشکارے وج رہے ہیں۔ روم سروس کو فون کرکے رات کے کھانے کا مکمل آرڈر نوٹ کروایا اور اگلے دن واپسی کے لیے سامان ترتیب دینے لگا۔ سورج غروب ہونے لگا تھا۔ میں نے سوچا شکر ہے یہ دن ختم ہوا۔ اب کچھ گڑبڑ نہیں ہوسکتی۔ اسی وقت کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی اور روم سروس سے آئے صاحب نے کسی اور کے منگوائے ہوئے سینڈوچ کا آرڈر لیے میرے کمرے میں داخل ہونے کی اجازت چاہی۔

تبصرے (1) بند ہیں

Salazar Jun 23, 2022 11:29am
Khawar sahab, Keep going sir. You are my favorite Urdu blogger. I am using your blog to try teach Urdu to my children. I am sorry, ironically, I reply in English but first I don't have Urdu keyboard and second Urdu typing itself is pretty difficult. But thank you so very much for all you do.