گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں مہنگائی کی شرح میں 3.38فیصد اضافہ

اپ ڈیٹ 18 جون 2022
مہنگائی کی بنیادی وجہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اب تک ہونے والا سب سے زیادہ اضافہ ہے— فائل فوٹو: ڈان/ شہاب نفیس
مہنگائی کی بنیادی وجہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اب تک ہونے والا سب سے زیادہ اضافہ ہے— فائل فوٹو: ڈان/ شہاب نفیس

اسلام آباد: پاکستان ادارہ شماریات کے مطابق قیمتوں کے حساس اشاریوں کے مطابق افراط زر گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں 3.38 فیصد بڑھ گئی ہے جس کی بنیادی وجہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اب تک ہونے والا سب سے زیادہ اضافہ ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جمعہ کو جاری کردہ اعداد و شمار میں ہفتہ وار افراط زر میں اضافہ قیمتوں کے حساس اشاریوں کی پیمائش کے لیے بنیادی سال کی تبدیلی کے بعد سب سے زیادہ ہے، پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بالترتیب 84 اور 115 روپے فی لیٹر اضافہ کیا گیا جبکہ بجلی کے نرخوں میں 50 فیصد اضافہ کیا گیا۔

مزید پڑھیں: تیل اور کھانے پینے کی اشیا کا درآمدی بل 28 ارب 14 کروڑ ڈالر تک جا پہنچا

زیر جائزہ ہفتے کے دوران ایس پی آئی میں سال بہ سال اضافہ 27.82 فیصد تھا۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر پر سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ پیٹرول/ڈیزل کی قیمتوں میں 84 اور 115 روپے فی لیٹر، بجلی کی قیمتوں میں 50 فیصد اضافے کے باوجود آپ آئی ایم ایف کو مطمئن نہیں کر سکے، آپ کی حکومت کی طرف سے جاری کردہ تازہ ترین معاشی سروے ہماری مضبوط معاشی کارکردگی کی توثیق کرتا ہے لہٰذا ہم پر الزام تراشی بند کریں اور اپنی حکومت کی کارکردگی بہتر بنائیں۔

ایک اور ٹوئٹ میں شوکت ترین نے کہا کہ پیٹرول/ڈیزل/بجلی کی قیمتوں میں اب تک ہونے والے اضافے نے گھرانوں کو متاثر کیا ہے، پتا نہیں وہ اس سے اور آنے والی مہنگائی کے سونامی سے کیسے نمٹیں گے، ان کی پوسٹ میں چار رکنی خاندان کے بنیادی ماہانہ بجٹ کا گراف بھی موجود تھا جو 31 مارچ 2022 کے بعد بڑھ کر تقریباً 13ہزار روپے بڑھ چکا ہے۔

مذکورہ بجٹ میں شوکت ترین نے موٹرسائیکل میں پیٹرول کے استعمال، بجلی کے بل، بغیر گوشت کے کھانا، اسکول کی فیس وغیرہ کا ذکر کیا اور کہا کہ میں پریشان ہوں کہ پاکستان میں ایک غریب آدمی اس صورتحال میں کیسے زندہ رہے گا۔

حکومت نے بجٹ میں پہلے ہی اعلان کیا ہے کہ وہ پیٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس بحال کرے گی اور ساتھ ہی مرحلہ وار پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی بھی لگائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: سی پیک کے تحت توانائی معاہدوں پر دوبارہ مذاکرات کا مطالبہ نہیں کیا، آئی ایم ایف

حکومت نے بجٹ دستاویزات میں مالی سال 2023 کے لیے 11.5 فیصد کے معمولی افراط زر کا سالانہ ہدف پیش کیا تھا تاہم فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے مہنگائی کی شرح 12.8 فیصد رہنے کا تخمینہ لگایا ہے۔

شوکت ترین نے اندازہ لگایا کہ سالانہ مہنگائی کی شرح 25 سے 30 فیصد کے درمیان ہو گی۔

اقتدار میں آنے کے فوراً بعد نئی حکومت نے قیمتوں کی نگرانی کے لیے وقف کمیٹی کو ختم کر دیا جس کی قیادت وزیر خزانہ کر رہے تھے جبکہ صوبوں کی نمائندگی صوبائی چیف سیکریٹریز کر رہے تھے، کمیٹی کا اجلاس ہر پیر کو اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر نظر رکھنے کے لیے ہوتا ہے۔

ادارہ شماریات کے کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ زیر جائزہ ہفتے کے دوران 36 اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں اضافہ ہوا۔

چکن کی قیمت میں 12.10 فیصد، آلو 6.89 فیصد، پکی ہوئی دال 5.90 فیصد، دال چنا 5.29 فیصد، پلا ہوا گائے کا گوشت 5.19 فیصد، سبزی کا گھی 4.95 فیصد، سادہ ڈبل روٹی 4.37 فیصد، مسور کی دال 3.50 فیصد، پکانے کا تیل 2.87 فیصد، ماش کی دال 1.7فیصد، ہڈی والا گائے کا گوشت 1.50فیصد مہنگا ہوا، اس کے علاوہ دیگر کھانے پینے کی اشیاء جیسے چاول، دال اور دودھ کی قیمتوں میں بھی اضافہ دیکھا گیا۔

مزید پڑھیں: اشیائے خورونوش کے درآمدی بل میں 52فیصد اضافے نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

نان فوڈ آئٹمز میں ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 28.91 فیصد، جینٹس اسپنج چپل کی قیمت میں 26.76 فیصد، مردانہ سینڈل کی قیمت میں 15.40 فیصد، پیٹرول کی قیمت میں 11.43 فیصد، بجلی کی قیمتوں میں 6.60 فیصد اور سگریٹ کی قیمتوں میں 6.27 فیصد اضافہ ہوا۔

سب سے کم آمدنی والے گروپ (یعنی 17,732 روپے ماہانہ سے کم کمانے والے افراد) کے لیے پرائس انڈیکس میں 2.85 فیصد اور 44,175 روپے سے زیادہ کی ماہانہ آمدنی والے گروپ کے لیے 3.10 فیصد اضافہ ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں