فرئیر ہال میں گیٹ اور باڑ لگانے پر شہریوں کی تنقید

اپ ڈیٹ 20 جون 2022
گزشتہ روز سول سوسائٹی کے ارکان نے فرئیر ہال میں باڑ لگانے کے خلاف مظاہرہ کیا تھا — فوٹو: ڈان
گزشتہ روز سول سوسائٹی کے ارکان نے فرئیر ہال میں باڑ لگانے کے خلاف مظاہرہ کیا تھا — فوٹو: ڈان

کراچی میں واقع تاریخی اہمیت کا حامل فرئیر ہال ایک ایسی جگہ کے طور پر جانا جاتا ہے جہاں بلاروک ٹوک تمام شہری آسکتے ہیں اور یہ تاریخی ورثہ تمام شہریوں کو خوش آمدید کہتا ہے۔

گزشتہ دنوں اس تاریخی عمارت میں باڑ لگانے اور گیٹ نصب کرنے کا کام شروع کیا گیا تھا جو اب زیر تعمیر ہیں، مبینہ طور پر ان تعمیرات کا مقصد عوام کو بلاروک ٹوک اس مقام پر آنے سے روکنا ہے۔

شہریوں نے سوشل میڈیا پر اس اقدام کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور اس فیصلے پر اپنی سخت ناپسندیدگی کا کھل کر اظہار کیا ہے۔

فرئیر ہال کو اتوار کے چھٹی والے دن پرسکون مقام، کتابوں سے محبت کرنے والوں کے لیے جائے پناہ اور خاندان کے لیے پکنک کے مقام کی حیثیت حاصل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: فریئر ہال کا قصّہ

فرئیر ہال ایک ایسا مقام اور ایسی جگہ ہے جس کی شکل تو نہیں بدلتی لیکن اس تاریخی مقام کا مطلب اور حیثیت مختلف لوگوں کے لیے مختلف ہے۔

حال ہی میں کراچی شہر کے مشہور تاریخی مقام فرئیر ہال میں نئی تعمیرات کا آغاز ہوا، ان تعمیرات کے بارے میں لوگوں کا خیال ہے کہ لوگوں کی بلاروک ٹوک آمد کو روکنے کے لیے گیٹ بنایا جارہا ہے۔

ان خدشات اور تحفظات کے پیش نظر گزشتہ روز سماجی تنظیم سے تعلق رکھنے والے شہریوں نے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔

گیٹ بنانے کے 'غلط، ناقص' فیصلے کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے مظاہرین نے سرخ رنگ کے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر 'نو فینس' اور 'سے نو ٹو فرئیر ہال گیٹ' کے الفاظ کے نعرے واضح انداز میں درج تھے۔

مظاہرین کا مؤقف تھا کہ یہ پارک شہر کا تاریخی مقام ہے اور اس کے تعمیراتی تاریخی ورثے کو محفوظ کیا جانا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: عدالت کا فرئیر ہال میں نئی تعمیرات پر اظہار برہمی، مرتضیٰ وہاب کو نوٹس جاری

تاریخی عمارت میں نئی تعمیرات کے حکومتی اقدام پر شہریوں کا ردعمل صرف اس احتجاج تک محدود نہیں رہا، پاکستان میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر اس فیصلے پر مشتعل ہونے والے انٹرنیٹ صارفین کے ردعمل سے بھرا پڑا ہے۔

ٹوئٹر صارفین نے ان تعمیرات پر تنقید کرتے ہوئے اس اقدام کو عوامی مقام کی 'نجکاری' کے مترادف قرار دیا۔

صارفین نے اقدام پر کہا کہ یہ فیصلہ نہ صرف معاشرے میں 'طبقاتی تقسیم' کو مزید گہرا کرے گا بلکہ ان تعمیرات سے فرئیر ہال کی خوبصورتی میں بھی بہت زیادہ کمی واقع ہوگی۔

مزید پڑھیں: کراچی: 'ماورائے عدالت قتل‘ سے متعلق نمائش میں سادہ لباس افراد کی مداخلت

تعمیراتی شعبے کی ماہر اور پاکستان چوک کمیونٹی سینٹر کی ڈائریکٹر ماروی مظہر نے معاملے پر آواز اٹھائی اور دنیا کے بڑے اور جدید شہروں کی طرح عوامی مقامات کے تعمیراتی ڈیزائن میں شہریوں کی رائے کی شمولیت کی اہمیت پر زور دیا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری اپنے بیان میں ماروی مظہر نے کہا کہ حکومتی عہدیداروں کو شہر کے بنیادی ڈھانچے سے متعلق مسائل پر اپنی توجہ مرکوز رکھنی چاہیے، ان کا کام شہر کی خوبصورتی کے لیے اپنے طور پر اپنا من پسند فیصلہ مسلط کرنا نہیں ہے۔

ایڈمنسٹریٹر بلدیہ عظمیٰ کراچی (کے ایم سی) مرتضیٰ وہاب نے فرئیر ہال میں کسی گیٹ کی تنصیب سے انکار کیا ہے۔

اس دلیل کے جواب میں کہ یہ گیٹ نہیں ہے بلکہ کچھ اور تعمیرات ہیں، ماروی مظہر کا کہنا تھا کہ یہ کچھ بھی تعمیرات ہوں، کوئی بھی تعمیراتی منصوبہ شروع کرنے سے پہلے اس سے متعلق عوام کی رائے لی جانی ضروری ہے۔

معروف سماجی کارکن جبران ناصر سمیت بہت سے ٹوئٹر صارفین نے اپنے ردعمل میں مرتضیٰ وہاب کو ٹیگ کیا اور نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ کس طرح عوامی مقامات تک عام شہریوں کا رسائی کا حق محدود کیا جارہا ہے، جبکہ اشرافیہ کو خاص ہونے کا احساس دلایا جا رہا ہے۔

ماہر تعلیم ندا کرمانی نے مرتضیٰ وہاب کو شہریوں کی آواز سننے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ 'نجی سرمایہ کاروں کے مفادات' کے بجائے 'شہریوں کی آوازیں سنیں'۔

ڈیزائنر ماہین خان نے معاملے پر ردعمل دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ 'کوڑا کرکٹ، کچرا اٹھانے کا نظام، بارش کے پانی کی نکاسی، کھلے نالے اور بند سیوریج سسٹم جیسے کتنے سنگین مسائل ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے'۔

او یو پی پاکستان کی سابق مینیجنگ ڈائریکٹر امینہ سید نے حکومت سندھ سے کہا کہ وہ اس چیز کو روکے۔

انٹرنیٹ صارفین نے شہریوں کے عوامی پارکوں میں بلاروک ٹوک داخلے کے حق سے متعلق بات کی۔

کچھ صارفین نے نشاندہی کی کہ سرسبز، کھلے و پرفضا مقامات لوگوں کی فلاح و بہبود اور ان کی صحت کے لیے کتنے اہم ہیں۔

80 سالہ بزرگ شہری نے فرئیر ہال سے وابستہ اپنے بچپن کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کہا کہ تعمیرات کے 'اس گھناؤنے عمل کو روکنا چاہیے'۔

ان تعمیرات کے نتیجے میں طبقاتی تقسیم کے بارے میں نہ صرف انٹرنیٹ صارفین ناراض اور مشتعل ہیں بلکہ یہ تعمیرات کافی 'بدصورت' بھی نظر آتی ہے جو شہر کی تاریخی عمارت کی خوبصورتی کو بھی داغدار کر رہی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں