کراچی: 'ماورائے عدالت قتل‘ سے متعلق نمائش میں سادہ لباس افراد کی مداخلت

اپ ڈیٹ 28 اکتوبر 2019
عدیلہ سلیمان نے کہا کہ ان کی نمائش میں سابق ایس ایس پی راؤ انوار کی کوئی تصویر شامل نہیں تھی — فوٹو: نازش بروہی ٹوئٹر
عدیلہ سلیمان نے کہا کہ ان کی نمائش میں سابق ایس ایس پی راؤ انوار کی کوئی تصویر شامل نہیں تھی — فوٹو: نازش بروہی ٹوئٹر

کراچی کے فریئر ہال میں جاری کراچی بینالے کے دوران ’ماورائے عدالت قتل‘ سے متعلق نمائش کو مبینہ طور پر سادہ لباس میں ملبوس افراد کی جانب سے بند کروانے پر انسانی حقوق کے کارکنوں نے تشویش کا اظہار کردیا۔

نمائش میں موجود عینی شاہدین اور آرٹسٹس نے بتایا کہ سادہ لباس میں ملبوس کچھ افراد نے زبردستی نمائش رکوائی، جس کے باعث سوشل میڈیا پر انسانی حقوق کے کارکنوں کی جانب سے تنقید کی جارہی ہے۔

عدیلہ سلیمان کی نمائش کا عنوان کلنگ فیلڈز آف کراچی تھا اور یہ نمائش سابق سینئر پولیس سپرنٹنڈنٹ (ایس ایس پی) راؤ انوار کی جانب سے کیے جانے 444 مبینہ ماورائے عدالت قتل سے متعلق تھی۔

کراچی کے جنوبی زون کی پولیس کے سربراہ نے کہا کہ ’یہ مسئلہ ہمارے علم میں لایا گیا ہے اور ہم اس کی تحقیقات کررہے ہیں‘۔

تاہم ڈی آئی جی شرجیل کھرل نے کہا کہ انہیں اور ان کی ٹیم کو آرٹسٹ یا نمائش کے منتظمین کی جانب سے کوئی باضابطہ یا غیر رسمی شکایت موصول نہیں ہوئی۔

ایک اور پولیس افسر نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ نمائش روکنے میں پولیس نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔

مزید پڑھیں: پرندوں کی پرواز میں حائل طویل عمارتیں اور ’کراچی بینالے‘

پولیس افسر نے کہا کہ اس معاملے پر تبصرہ کرنا مناسب نہیں۔

آرٹسٹ اور مجسمہ ساز عدیلہ نے کہا کہ وہ تاریخی فریئر ہال میں ویڈیو نمائش کے مقام پر تھیں جب کچھ لوگوں کو ان سے متعلق پوچھتے ہوئے دیکھا گیا۔

انڈس ویلی اسکول آف آرٹ اینڈ آرکیٹیکچر کے فائن آرٹس ڈپارٹمنٹ کی سربراہ اور ایسوسی ایٹ پروفیسر نے ڈان کو بتایا کہ صبح 10 کے قریب سادہ لباس میں ملبوس 2 افراد آئے اور فریئر ہال کی انتظامیہ پر نمائش روکنے پر دباؤ ڈالا۔

انہوں نے کہا تھا کہ اگر ان کی ہدایات پر عمل نہ کیا گیا تو وہ زبردستی نمائش روک دیں گے۔

عدیلہ سلیمان نے کہا کہ دونوں افراد نے براہ راست ان سے کوئی بات نہیں کی اور یہ تقریب کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن اور انتظامیہ کی اجازت سے منعقد کی گئی تھی۔

اپنے کام کے ذریعے سماجی اور سیاسی تبصرہ نگاری کے حوالے سے جانے والی عدیلہ سلیمان نے کہا کہ ’وہ صرف مبینہ ماورائے عدالت قتل کی کہانی یاد دلارہی تھیں جس میں نقیب اللہ محسود کا قتل بھی شامل تھا اور وہ روایتی میڈیا، سوشل میڈیا اور عدالتی کارروائیوں میں پہلے سے موجود ہے‘۔

عدیلہ سلیمان نے کہا کہ ان کی نمائش میں سابق ایس ایس پی راؤ انوار کی کوئی تصویر شامل نہیں تھی۔

علاوہ ازیں انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ فریئر ہال کا نیچے والا ہال جہاں نمائش منعقد کی گئی تھی اسے اب سیل کردیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: فریئر ہال میں نصب تاریخی ' مرغا' چوری

انہوں نے بتایا کہ ان کی پینٹینگز ہال کے باہر موجود ہیں۔

نمائش بند کروانے میں کون سے 2 لوگ ملوث تھے اس حوالے سے عدیلہ سلیمان نے جواب دیا کہ وہ نہیں جانتیں۔

ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سے وابستہ کرامت علی نے نمائش کے مقام کو کھولنے کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ کراچی بینالے کراچی اور پاکستان کا مثبت تصور پیش کررہا تھا۔

کرامت علی نے کہا کہ حکام کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ سرگرمی ملک کے مفاد میں تھی، لوگوں کے جمہوری اور آئینی حقوق کا احترام کرنا چاہیے۔

نقیب اللہ محسود کے والد کے وکیل فیصل صدیقی نے یہ 444 قتل پولیس ریکارڈ کا حصہ ہیں۔

واضح رہے کہ 13 جنوری 2018 کو کراچی میں مبینہ انکاؤنٹر میں نقیب اللہ محسود سمیت 3 افراد کو قتل کردیا گیا تھا تاہم سوشل میڈیا پر عوام کی جانب سے غم و غصے کے اظہار کے بعد حکام اور سپریم کورٹ نے نوٹس لیا تھا۔

بعد ازاں ایس ایس پی راؤ انوار اور دیگر اہلکاروں کو عہدے سے برطرف کیا گیا تھا اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے بتایا تھا کہ نقیب اللہ محسود ایک جعلی انکاؤنٹر کے نتیجے میں کیا گیا۔

تحقیقات کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ نسیم اللہ جو نقیب اللہ کے نام سے جانے جاتے تھے وہ کسی مجرمانہ سرگرمی میں ملوث نہیں رہے تھے۔


یہ خبر 28 اکتوبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں