سندھ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ رائٹ بینک آؤٹ فال ڈرین (آر بی او ڈی) کے کمپوننٹ 1 اور 3 کا انتظامی کنٹرول نہیں لے گی، اور منچھر جھیل کی ماحولیاتی بحالی کو دیکھتے ہوئے یہ ایک حیران کن فیصلہ ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ آر بی او ڈی سیریز کا ایک اہم حصہ آر بی او ڈی 2 نقائص کا شکار اور نامکمل ہے اس وجہ سے واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کی جانب سے تعمیر کردہ آر بی او ڈی 1 اور آر بی او ڈی 3 کا کنٹرول حاصل کرنا سندھ کے لیے بے مقصد ہے۔

سندھ کے وزیرِ آبپاشی جام خان شورو نے 11 مئی کو اسلام آباد میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل کے اجلاس میں سندھ حکومت کے اصولی مؤقف سے آگاہ کیا۔ اس فیصلے میں یہ بات مضمر ہے کہ آر بی او ڈی 1 کا پانی منچھر جھیل میں جاتا رہے گا جو ضلع جامشورو میں وزیرِ اعلیٰ سندھ کے حلقے میں واقع ہے۔

سندھ کے وزیرِ آبپاشی نے یہ نہیں بتایا کہ آر بی او ڈی 2 پر کام کب مکمل ہوگا اور اس کے حوالے سے آگے کیسے بڑھا جائے حالانکہ سندھ حکومت کی پراجیکٹ اسٹیئرنگ کمیٹی نے مئی 2021ء میں آر بی او ڈی 2 کو تکمیل کے لیے واپڈا کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور کہا تھا کہ ’حکومتِ سندھ اس منصوبے کی تکمیل کے لیے وفاقی حکومت کی ہر ممکن مدد کرے گی‘۔

کمیٹی کے فیصلے کے مطابق محکمہ آبپاشی نے وزیرِ اعلیٰ سندھ کی منظوری کے لیے ایک سمری تیار تھی۔ کہا جاتا ہے کہ وزیرِ آبپاشی نے سمری پر اپنے 'نوٹ' میں تجویز پیش کی ہے کہ اس بات سے قطع نظر کہ کون سی ایجنسی اس پر عمل درآمد کرتی ہے، آر بی او ڈی 2 کو موجودہ الائنمنٹ کے ساتھ مکمل نہیں کیا جاسکتا۔ یہ سمری پچھلے ایک سال سے زیرِ التوا ہے۔

اگرچہ متعلقہ صوبائی وزیر آر بی او ڈی کا کنٹرول نہ لینے میں حق بجانب ہیں لیکن اس کا ایک پریشان کن پہلو یہ ہے کہ اس طرح منچھر جھیل کی بحالی کا کام التوا کا شار ہوجائے گا کیونکہ اس کا براہِ راست انحصار آر بی او ڈی 2 کی تکمیل پر ہے۔

مزید پڑھیے: منچھر جھیل: جو نہ پوری طرح زندہ ہے اور نہ مر رہی ہے!

آر بی او ڈی 2 وفاقی منصوبہ ہے اور اس میں سندھ حکومت کا حصہ 7 ارب روپے کا ہے۔ یہ منصوبہ گزشتہ 2 دہائیوں سے التوا کا شکار ہے۔ سندھ کی موجودہ حکمران جماعت فروری 2008ء سے اس صوبے پر حکومت کررہی ہے اور ان 14 سالوں میں بھی یہ حکومت اس منصوبے کے حوالے سے اپنے اعتراضات کا حل نہیں پیش کرسکی۔ یہ سوال بھی موجود ہے کہ حکومت نے آر بی او ڈی 2 کی الائمنٹ کو درست کروائے بغیر 2017ء میں اس کی 62 ارب روپے کی نظر ثانی شدہ لاگت پر اعتراض کیوں نہیں کیا۔

اس وجہ سے منچھر جھیل کا مستقبل تاریک ہی نظر آتا ہے۔ یہ بہت پرانی کہانی ہے کہ جھیل اپنا حیاتیاتی تنوع کھوچکی ہے اور یہاں بسنے والے ماہی گیر گھرانے آلودہ پانی کے باعث اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ شاید ان لوگوں نے بھی اپنی تقدیر کو تسلیم کرلیا ہے۔

کئی ماہی گیر گھرانے تو کسی اور روزگار کے لیے اپنے تیرتے آشیانے چھوڑ چکے ہیں۔ یہ جھیل ماہی گیری اور ذراعت کا ایک اہم ذریعہ تھی لیکن پھر اس میں مین نارا ویلی ڈرین (ایم این وی ڈی) یا آر بی او ڈی 1 سے آلودہ پانی آنے لگا۔

اس سے قبل واپڈا نے ہی آر بی او ڈی 1 اور 2 منصوبے مکمل کیے ہیں۔ آر بی او ڈی 2 کی تکمیل کے بعد یہ ایم این وی ڈی سے آنے والے آلودہ پانی کو بحیرہ عرب میں لے جاتا، جو اس وقت یہ پانی منچھر جھیل میں گرتا ہے۔ جام خان شورو کے مطابق ’آر بی او ڈی 2 کے ڈیزائن میں نقص ہے۔ یہ سیہون کے قریب دریائے سندھ سے ہوکر گزرتا ہے اس وجہ سے موجودہ الائنمنٹ کے ساتھ اسے تعمیر نہیں کیا جاسکتا‘۔

ایم این وی ڈی دریائے سندھ کے دائیں کنارے پر تعمیر ہونے والا پہلا منصوبہ تھا اور اس کی منصوبہ بندی واپڈا نے ہی کی تھی۔ اس کا مقصد سیم و تھور کا خاتمہ تھا۔ ایم این وی ڈی کو 1976ء میں منچھر جھیل سے جوڑا گیا تھا۔ اس وقت بھی طویل عرصے سے وہاں رہائش پذیر مقامی افراد نے اس پر خدشات کا اظہار کیا تھا۔ مقامی افراد کو خوف تھا کہ اس طرح جھیل آلودہ ہوجائے گی۔

واپڈا کی جانب سے بنائے گئے آر بی او ڈی کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ واپڈا نے 1992ء میں سکھر اور گڈو بیراج کے دائیں کنارے پر آلودہ پانی کی نکاسی کے لیے آر بی او ڈی کی تجویز دی تھی۔ آر بی او ڈی 1 اور 3 کا منصوبہ 1994ء سے 2004ء تک التوا کا شکار رہا اور پھر واپڈا نے 2020ء میں اس منصوبے کو مکمل کیا۔

مزید پڑھیے: کرشمے کی منتظر منچھر جھیل

ابتدائی طور پر واپڈا کا منصوبہ تھا کہ ایم این وی ڈی کے پانی کو منچھر جھیل یا دریائے سندھ میں ڈال دیا جائے لیکن سندھ نے اس پر اعتراض کیا۔ اس کے بعد جنرل مشرف کے دور میں 273 کلومیٹر طویل آر بی او ڈی 2 منصوبہ پیش کیا گیا تاکہ 2 ہزار 271 کیوسک پانی کو سمندر تک لے جایا جائے۔ اسے ڈیھ کرمپور، سیہون میں (پہلے سے تعمیر شدہ) انڈس لنک کے ذریعے آر بی او ڈی 1 سے ملایا جانا تھا۔

14 ارب روپے سے تعمیر ہونے والے آر بی او ڈی 2 کا آغاز 2001ء میں ہوا اور اسے 2005ء میں مکمل ہونا تھا۔ اس وقت کے وزیرِاعظم میر ظفر اللہ خان جمالی کے احکامات کے مطابق آر بی او ڈی 2 کی تکمیل کے بعد آر بی او ڈی 3 کے ذریعے بلوچستان کو بھی اس سے منسلک کرنا تھا۔ آر بی او ڈی 3 نے قمبر شہداد کوٹ میں آر بی او ڈی 2 میں ملنا تھا۔

اس وجہ سے پانی کے اخراج کی صلاحیت کو 2 ہزار 271 کیوسک سے بڑھا کر 3 ہزار 525 کیوسک کرنی پڑی۔ شدید بارشوں اور سیلاب سے اس نالے کو شدید نقصان پہنچا جس کی وجہ سے اس کی لاگت کا تخمینہ دوبارہ لگایا گیا۔ اس منصوبے کا تقریباً 73 فیصد کام مکمل ہوچکا ہے لیکن اس کے لیے درکار زمین کا 20 فیصد حصہ ابھی تک حاصل نہیں کیا گیا ہے۔

آر بی او ڈی 2 کے ساتھ واقع نئی گنج اس علاقے کا ایک اہم ہِل ٹورینٹ ہے، یہ منچھر جھیل کے لیے میٹھے پانی کی فراہمی کا بھی ایک اہم ذریعہ ہے۔ واپڈا اس پر ڈیم بنارہی ہے۔ پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) 23ء-2022ء کے تحت بڑے ڈیموں جیسے کہ دیامیر بھاشا، مہمند، نئی جنگ اور تربیلا کی 5ویں ایکسٹینشن کے لیے فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔ آبی وسائل کے 95 ارب 56 کروڑ روپے کے منصوبوں کے لیے 60 ارب روپے آئندہ مالی سال میں رکھے گئے ہیں۔ ان میں 39 ارب روپے بڑے ڈیموں اور 21 ارب روپے چھوٹے ڈیموں کے لیے ہیں۔

نیشنل اکانومک کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی نے ڈیم کی لاگت پر نظرثانی کرکے اسے 46 ارب 98 کروڑ روپے کردیا ہے جس میں ایک ارب 89 کروڑ روپے حکومتِ سندھ اور تقریباً 45 ارب روپے وفاقی حکومت ادا کرے گی۔ لاگت کا نیا تخمینہ 11 مارچ 2021ء کو منظور ہوا تھا۔ اس کے علاوہ پی ایس ڈی پی 23ء-2022ء کے تحت بھی 3 کروڑ 80 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں۔

مزید پڑھیے: بیمار منچھر جھیل علاج چاہتی ہے

اس ڈیم نے منچھر جھیل میں 50 کیوسک میٹھا پانی پہنچانا ہے لیکن ناصر پنھور جیسے ماہرِ ماحولیات کے مطابق ڈیم کے بننے سے جھیل تک پہنچنے والے پانی کے بہاؤ میں کمی آئے گی جس سے جھیل کا حیاتیاتی تنوع مزید تباہ ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’بارش کے موسم میں آنے والی تبدیلی پہاڑی ندی نالوں سے پانی کے حصول کو مزید مشکل بنادے گی‘۔

2018ء میں محکمہ آبپاشی نے 2 اسکیپ چینل مڈو اور روات کے ذریعے جھیل میں 600 کیوسک میٹھا پانی پہنچانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ یہ اسکیپ چینل سکھر بیراج کی نان پرینیل رائس کنال سے نکلے تھے۔ ان میں سے ہر چینل نے ایم این وی ڈی میں 300 کیوسک پانی چھوڑنا تھا جو بعد ازاں منچھر جھیل میں جاتا۔

سپریم کورٹ کی جانب سے ریٹائرڈ جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں واٹر اینڈ سینیٹیشن کے حوالے سے قائم جوڈیشل کمیشن نے اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کو آر ڈی 323 کے مقام پر ایم این وی ڈی کا دورہ کروایا تاکہ انہیں ایم این وی ڈی میں داخل ہونے والا بہاؤ دکھایا جاسکے۔

اس کے بعد سے اس حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی کہ آیا یہ کوئی قابلِ عمل طریقہ ہے بھی یا نہیں۔ اسی طرح حکومتِ سندھ بھی آر بی او ڈی 2 پر عمل درآمد کے لیے اسے واپڈا کو سونپنے کا فیصلہ نہیں کرسکی۔ فیصلے کے مطابق صوبائی حکومت اب تک آر بی او ڈی 2 کے ڈیزائن سے متعلق مسائل کی جانچ کے لیے غیر ملکی ماہرین کا تعین نہیں کرسکی ہے۔ تو کیا کسی کو اس کی فکر بھی ہے؟


یہ مضمون 20 جون 2022ء کو ڈان اخبار کے ’دی بزنس اینڈ فنانس ویکلی‘ میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں