بلدیاتی انتخابات: پیپلزپارٹی نے ایم کیو ایم کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی کی، وسیم اختر کا الزام

27 جون 2022
وسیم اختر نے کہا کہ معاہدے میں واضح طور پر لکھا ہے کہ دونوں جماعتیں اپنے مینڈیٹ کو قبول کرتے ہوئے اس کا تحفظ کریں گی—فوٹو: ڈان نیوز
وسیم اختر نے کہا کہ معاہدے میں واضح طور پر لکھا ہے کہ دونوں جماعتیں اپنے مینڈیٹ کو قبول کرتے ہوئے اس کا تحفظ کریں گی—فوٹو: ڈان نیوز

سابق میئر کراچی و رہنما متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) وسیم اختر نے اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ( پی پی پی) پر سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں معاہدے کی خلاف ورزی کرنے اور 'مینڈیٹ چوری' کرنے کا الزائد عائد کیا ہے۔

کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سابق میئر کراچی وسیم اختر نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ کیے گئے ایم کیو ایم کے معاہدے میں واضح طور پر لکھا ہے کہ دونوں جماعتیں اپنے مینڈیٹ کو قبول کرتے ہوئے اس کا تحفظ کریں گی۔

سندھ میں حکمران جماعت پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے رواں سال مارچ میں پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس میں ایم کیو ایم کو یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ اگر وہ حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے کے لیے اپوزیشن اتحاد کی حمایت کرتی ہے تو حکومت ان کے تمام برسوں پرانے مطالبات کو پورا کرے گی۔

مزید پڑھیں: ایم کیو ایم پاکستان کا حکومت سے علیحدگی کا اعلان، متحدہ اپوزیشن سے معاہدے پر دستخط

ایم کیو ایم کی طرف سے مطالبات پر اس معاہدے میں اتفاق کیا گیا تھا، ان میں بلدیاتی حکومت کے ڈھانچے سے لے کر مستقبل میں حکومت میں حصہ داری کا فارمولا اور سندھ میں مقامی سطح پر پولیس کی بھرتی کی پالیسی کو بھی شامل کیا گیا تھا۔

'چارٹر آف رائٹس' کے نام سے ہونے والے معاہدے کا پہلا نکتہ براہ راست سندھ میں بلدیاتی حکومت سے متعلق تھا، جس میں دونوں جماعتوں نے اتفاق کیا تھا کہ مقامی حکومتوں کے حوالے سے ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے دائر آئینی پٹیشن پر عدالت عظمیٰ کے دیے گئے فیصلے پر ایک ماہ کے اندر اور باہمی معاہدے کے ساتھ عمل درآمد کیا جائے گا۔

دوران پریس کانفرنس وسیم اختر نے کہا کہ معاہدے میں شامل تمام نکات میں سے یہ اہم نکتہ تھا جس کی سندھ حکومت نے 14 اضلاع میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے دوران خلاف ورزی کی ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ متعدد علاقوں میں ان کی جماعت کے امیدوار اچھے مارجن کے ساتھ بڑی لیڈ پر تھے مگر نتائج روک لیے گئے اور ہمارا مینڈیٹ قبول نہیں کیا گیا۔

انہوں نے وزیر اعلیٰ سندھ پر زور دیا کہ وہ الیکشن کمیشن آف پاکستان سے ملاقات کریں اور حلقہ بندیوں پر نظر ثانی کریں۔

'کراچی اور حیدرآباد میں بدانتظامی ہوئی تو الیکش کمیشن ذمہ دار ہوگا'

وسیم اختر نے کہا کہ اگر کراچی اور حیدرآباد میں بھی اسی طرح انتخابات ہوئے اور انتخابی بدانتظامی اور مینڈیٹ چورے کرنے کو نہ روکا گیا تو اس کا ذمہ دار الیکش کمیشن ہوگا، کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے لیے پولنگ 24 جولائی کو ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: ایم کیو ایم پاکستان سے معاملات طے پا گئے ہیں، پیپلز پارٹی کا دعویٰ

سابق میئر کراچی نے وزیر اعظم شہباز شریف پر زور دیا کہ وہ اس معاملے پر غور کریں اور ساتھ ہی اس بات کا افسوس بھی کیا کہ مردم شماری میں کراچی کی آبادی کو آدھا ظاہر کیا گیا ہے اور اس سے بڑھ کر کوئی ناانصافی نہیں ہو سکتی۔

یاد رہے کہ وزیراعظم نے ہفتے کے روز ایم کیو ایم پاکستان کی تجویز پر اتفاق کیا تھا کہ اقتدار میں آنے سے پہلے طے پانے والے معاہدے پر عملدرآمد اور پیشرفت کا جائزہ لینے کے لیے ایم کیوایم اراکین کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ (ن) کے اراکین پر مشتمل بنئی جائے۔

الیکشن کمیشن پر تنقید کرتے ہوئے وسیم اختر نے خبردار کیا کہ اگر الیکشن کمیشن کی طرف سے بلدیاتی انتخابات میں درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیے وقتی اقدامات نہیں کیے گئے تو 2023 کے عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر بدانتظامی اور افراتفری ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ کراچی کو حقوق دلانے کے لیے ان کی جماعت نے تمام آپشن استعمال کیے ہیں، کیا ان مسائل کو حل کرنے کےلیے اب ہمیں روس اور چین سے رجوع کرنا چاہیے؟

ان کا کہنا تھا کہ انہیں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ان الفاظ پر اعتماد ہے جس میں انہوں نے ایم کیو ایم پاکستان کے مسائل حل کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی، انہوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پھر وعدے پر عمل درآمد میں تاخیر کیوں کی جا رہی ہے۔

جے یو آئی ف اور جی ڈی اے کا 'ای سی پی' آفس کے باہر احتجاجی مظاہرے کا اعلان

دریں اثنا، جمعیت علمائے اسلام(فضل الرحمٰن) اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) نے بھی بلدیاتی انتخابات کے نتائج کو مسترد کر دیا اور کہا کہ وہ ای سی پی کے صوبائی دفتر کے باہر 28 جون بروز منگل کو احتجاج کریں گے۔

جی ڈی اے کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر صفدر عباسی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے جے یو آئی (ف) کے راشد محمود سومرو نے دعویٰ کیا کہ وہ برسوں سے ایک مخصوص پولنگ اسٹیشن پر ووٹ ڈال رہے ہیں لیکن اس بار ان کا نام ووٹر لسٹ میں شامل نہیں کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ایم کیو ایم سندھ حکومت میں اتحادی بن سکتی ہے، سعید غنی

ان کا مزید کہنا تھا کہ اتوار کا الیکشن تشدد اور دھاندلی سے لبریز تھا، گزشتہ روز ہماری یونین کمیٹی میں رات 10 بجے تک بیلٹ پیپر پر مہر لگائی جا رہی تھی، انہوں نے کہا کہ پارٹی کے ایک امیدوار کے خلاف دہشت گردی کے دو مقدمات درج ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ جے یو آئی (ف) نے دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے، پارٹی نے پھر بھی نتائج کو مسترد کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایسی صورتحال میں جے یو آئی (ف) نے دیگر جماعتوں سے مشاورت شروع کر دی ہے جس کے نتیجے میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کا بائیکاٹ کیا جاسکتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں