ایم کیو ایم پاکستان سے معاملات طے پا گئے ہیں، پیپلز پارٹی کا دعویٰ

اپ ڈیٹ 25 مارچ 2022
پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے شہباز شریف سے بھی ملاقات کی — فوٹو: وائٹ اسٹار
پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے شہباز شریف سے بھی ملاقات کی — فوٹو: وائٹ اسٹار

اسلام آباد: ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے بعد جہاں پاکستان پیپلز پارٹی نے پراعتماد انداز میں کہا ہے کہ اہم حکومتی اتحادی کے ساتھ معاملات طے پاگئے ہیں اور جلد ہی باضابطہ اعلان متوقع ہے، وہیں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے تاثر دیا کہ عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد کے سیاسی منظرنامے پر مشترکہ اپوزیشن ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کر سکی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل فرحت اللہ بابر نے پارٹی کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے بعد زرداری ہاؤس کے باہر صحافیوں کو بتایا کہ ایم کیو ایم سے آج بات چیت ہوئی ہے اور معاملات طے پا گئے ہیں، یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ وزرا بھی اپوزیشن کے ساتھ ہوں گے۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ ایم کیو ایم۔پاکستان نے حتمی فیصلہ کرنے سے قبل پیپلز پارٹی کے ساتھ تحریری معاہدے کی خواہش ظاہر کی تھی، ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم نے ’نوکریوں میں حصہ داری‘ کے ساتھ ساتھ کراچی اور حیدرآباد میں اپنے پارٹی دفاتر کھولنے کا مطالبہ کیا، ان کا کہنا تھا کہ دونوں فریقین نے سندھ لوکل گورنمنٹ قانون میں مشترکہ طور پر تبدیلیاں تجویز کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ایم کیو ایم کے ساتھ معاملات طے پاگئے ہیں تاہم انہوں نے اس حوالے سے تفصیلات بتانے سے انکار کردیا، اس موقع پر ملازمتوں میں حصہ داری، لوکل گورنمنٹ قانون میں تبدیلی اور اپنے دفاتر کھولنے کے بارے میں ایم کیو ایم کے مطالبات کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے سادگی سے جواب دیا کہ ایک سیاسی جماعت ہمیشہ سیاسی مراعات کی تلاش میں رہتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کے پاس ہارس ٹریڈنگ کے ثبوت ہیں تو سامنے لائے، مریم اورنگزیب

اس پیشرفت سے باخبر پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رکن نے ڈان کو بتایا کہ ایم کیو ایم نے پہلے 17 مطالبات پیش کیے تھے اور پی پی پی نے ان میں سے اکثر پر اتفاق کیا تھا لیکن اب انہوں نے اپنے مطالبات کو بڑھا کر 28 کردیا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما نے کہا کہ ایم کیو ایم مرکز اور صوبے دونوں میں مستقبل کے سیٹ اپ میں حصہ مانگ رہی ہے، اس کے علاوہ ایم کیو ایم کراچی کے میئر آفس پر بھی نظریں جمائے ہوئے ہے حالانکہ انہوں نے اسے براہ راست اپنے مطالبات میں شامل نہیں کیا ہے۔

بعد ازاں ایک ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اختر نے کہا کہ ان کے مطالبات اور مسائل صوبہ سندھ سے متعلق ہیں اور یہ اچھی بات ہے کہ آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری دونوں نے ان میں سے بیشتر پر اتفاق کیا ہے جبکہ بدھ کو ہماری حکومتی ٹیموں کے ساتھ بھی اچھی ملاقات ہوئی ہے۔

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور صوبائی وزرا سید ناصر حسین شاہ، سعید غنی اور مرتضیٰ وہاب بھی ایم کیو ایم کے وفد سے ملاقات کے دوران موجود تھے جبکہ ایم کیو ایم کا وفد عامر خان، خالد مقبول صدیقی، امین الحق، وسیم اختر اور جاوید حنیف پر مشتمل تھا۔

وفد نے آصف زرداری کی طرف سے دیے گئے ظہرانے میں بھی شرکت کی۔

مزید پڑھیں: ایمرجنسی قانون کا حصہ ہے، پاکستان میں الیکشن جلدی بھی ہو سکتے ہیں، شیخ رشید

بعد ازاں آصف زرداری اور بلاول بھٹو نے مشترکہ طور پر پارٹی کے پارلیمانی گروپ کے اجلاس کی صدارت کی اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے دعویٰ کیا کہ اس اجلاس میں تمام پارلیمانی اراکین نے شرکت کی۔

اجلاس میں پارٹی قیادت نے اپنے ارکان کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے حوالے سے اہم ہدایات دیں اور تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے بھی ضروری ہدایات دیں۔

صحافیوں سے بات کرتے ہوئے فرحت اللہ بابر نے کہا کہ متحدہ اپوزیشن کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس جمعہ کو قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل ہو گا، انہوں نے مقررہ وقت پر اجلاس نہ بلانے پر اسپیکر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ اجلاس ’غیر قانونی‘ ہو گیا ہے لیکن وہ پھر بھی شرکت کریں گے اور حکومت کو کوئی بہانہ نہیں دیں گے، انہوں نے کہا کہ حکومت چاہے کچھ بھی کرے، انہیں تحریک عدم اعتماد کو ایجنڈے پر لانا ہوگا۔

پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے بعد پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی سرکاری رہائش گاہ پہنچے جہاں جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن بھی ان کے ہمراہ تھے۔

مزید پڑھیں: اتحادیوں کی حمایت اسی سرپرائز کا حصہ ہے جس کا ذکر وزیراعظم نے کل کیا تھا، فواد چوہدری

معاملات اب وزیراعظم کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں، فضل الرحمٰن

دریں اثنا ڈان نیوز کے عادل شاہ زیب کو انٹرویو دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ مشترکہ اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد سے قبل کئی معاملات پر ابھی فیصلہ کرنا ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا شہباز شریف کو عمران خان کی برطرفی کے بعد وزارت عظمیٰ کے لیے اپوزیشن کے پسندیدہ امیدوار کے طور پر منتخب کیا گیا ہے تو مولانا فضل الرحمٰن نے جواب دیا کہ ہم تمام معاملات کا فیصلہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد کریں گے۔

آرمی چیف کو عہدے سے ہٹانے سمیت عمران خان کے ممکنہ سرپرائز کے بارے میں سوال پر جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے کہا کہ اب سب کچھ ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے، ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی ہے، وزیراعظم اب غیر معمولی فیصلے نہیں کر سکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کے پاس آرمی چیف کو ہٹانے کے ’رسمی اختیارات‘ تھے لیکن اب معاملات ویسے نہیں رہے، معاملات اب وزیر اعظم کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں