جنوبی پنجاب کے جرائم پیشہ گروہوں کیخلاف ایک اور بڑے آپریشن کی منظوری

اپ ڈیٹ 29 جون 2022
وزیراعظم کی جانب سے ایک اور بڑے پیمانے پر آپریشن کی اجازت دے دی گئی ہے— فائل فوٹو: آن لائن
وزیراعظم کی جانب سے ایک اور بڑے پیمانے پر آپریشن کی اجازت دے دی گئی ہے— فائل فوٹو: آن لائن

جنوبی پنجاب کے دریائی علاقے طویل عرصے سے جرائم پیشہ گروہوں کی زد میں ہیں جو 2016 میں فوج کی مدد سے چھوٹو گینگ کے خلاف کی گئی کارروائی سمیت پولیس کی جانب سے گزشتہ 20 سالوں میں رحیم یار خان اور راجن پور کے اضلاع میں ایک درجن سے زائد بڑے پیمانے پر آپریشن کیے جانے کے باوجود کچھ عرصہ روپوش ہونے کے بعد پھر سر اٹھا لیتے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برسوں میں صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی مشترکہ کوششوں کے باوجود تمام آپریشنز بظاہر کچے کے علاقوں میں ریاست کی رٹ کو یقینی بنانے میں ناکام رہے ہیں اور اب انٹیلی جنس رپورٹس کے بعد وزیراعظم کی جانب سے ایک اور بڑے پیمانے پر آپریشن کی اجازت دے دی گئی ہے، دو اضلاع میں گروہ دوبارہ سر اٹھا رہے ہیں اور انہیں ایک بار پھر 'نو گو ایریاز' میں تبدیل کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: جنوبی پنجاب میں فوج کی معاونت سے آپریشن جاری

منصوبے کے تحت آپریشن چار مرحلوں میں کیا جائے گا جس میں اپروچ، کلیئرنس، استحکام اور حالات معمول پر لانا شامل ہے جبکہ مبینہ طور پر پولیس نے پہلے مرحلے کا پیر کو رات گئے آغاز کردیا تھا۔

اس کے علاوہ وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے ایک خصوصی کیس کے طور پر جانی نقصان سے بچنے کے لیے خطرناک دریائی علاقوں میں پولیس کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے کے لیے چار بکتر بند گاڑیوں کی ہنگامی بنیادوں پر خریداری کی منظوری دے دی۔

اس پیشرفت سے باخبر ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ اس آپریشن کی منظوری اتوار کو وزیر اعظم کے لاہور کے آخری دورے کے دوران ہونے والی ایک میٹنگ میں دی گئی، اجلاس میں آئی جی پنجاب راؤ سردار علی خان، ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (جنوبی پنجاب) احسان صادق، سیکریٹری داخلہ، ڈی جی خان کے ریجنل پولیس آفیسر، راجن پور اور رحیم یار خان کے ضلعی پولیس سربراہان کے ساتھ ساتھ دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران نے بھی شرکت کی۔

آئی جی پنجاب نے ایک پریزنٹیشن دیتے ہوئے دونوں اضلاع میں 5ہزار مربع کلومیٹر کو انتہائی پرخطر، پیچیدہ اور بظاہر ناقابل رسائی قرار دیا، دریا کے کئی حصے اور اس کے کنارے ضلعی اور پولیس انتظامیہ کے کنٹرول سے باہر ہیں جہاں جرائم پیشہ اور ڈاکوؤں کے کئی گروہ سندھ اور بلوچستان کے عناصر کی مبینہ حمایت سے کام کر رہے ہیں۔

ضرورت پڑنے پر آپریشن میں مدد کے لیے پنجاب رینجرز اور فوج کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب پولیس نے اغوا کے غیرمعمولی کیس میں جنوبی افریقی پولیس سے مدد مانگ لی

اہلکار نے مزید کہا کہ آئی جی پنجاب پوری کارروائی کی نگرانی کریں گے اور وزیراعظم کو پیش رفت کے بارے میں باقاعدگی سے اپ ڈیٹ کریں گے جبکہ ایڈیشنل آئی جی آپریشن کی قیادت کریں گے، اس دوران مقامی قبائلی رہنماؤں، بارڈر ملٹری پولیس اور مجرموں کے سہولت کاروں کا کردار بھی زیر بحث آیا۔

وزیراعظم کو بریفنگ دی گئی کہ 2003 سے شروع کیے گئے متعدد آپریشنز دریا کے علاقوں میں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے لیے ناکافی تھے اور تجویز پیش کی کہ خطے میں سماجی و اقتصادی انفراسٹرکچر کی فراہمی کبھی نہ ختم ہونے والے مسائل کا حل ہے۔

کہا جاتا ہے کہ وزیر اعظم نے پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ان جرائم پیشہ افراد سے علاقے کو چھڑانے کے لیے مشترکہ آپریشن شروع کرنے کی تجویز پر بھی غور کیا ہے۔

اہلکار نے بتایا کہ تازہ ترین آپریشن راجن پور اور رحیم یار خان اضلاع کے تقریباً 300 پولیس اہلکاروں، ایلیٹ فورس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پہلے مرحلے میں پولیس پکٹس قائم کرے گی اور علاقوں تک رسائی اور کنٹرول حاصل کرے گی، مسلح پولیس اہلکاروں کی بھاری نفری تعینات کی جائے گی، اہلکار سہولت کاروں کی گرفتاری میں مدد کے لیے مقامی قبائلی آبادی کے ساتھ رابطے استوار کریں گے، پولیس ایک کمانڈ اینڈ کنٹرول اور انٹیلی جنس سسٹم قائم کرنے کی بھی کوشش کرے گی تاکہ سرحد سے ملحقہ صوبوں میں کچے کے علاقوں میں جرائم پیشہ افراد کی مدد کرنے والے گروہوں کی نقل و حرکت کو روکا جا سکے۔

مزید پڑھیں: سال 2021 کے دوران لاہور میں جرائم کے واقعات میں 57 فیصد اضافہ

عہدیدار نے مزید بتایا کہ چند ہفتوں کے بعد اگلے یعنی 'کلیئرنس کے مرحلے میں پولیس مجرموں کے ٹھکانوں پر کام کرے گی، جس میں مزید دو سے تین ہفتے لگ سکتے ہیں، اس کے بعد آپریشن کے حصے ’استحکام‘ پر کام شروع کیا جائے گا تاکہ پولیس کے بنیادی ڈھانچے کو تیار کرنے کے لیے شروع کیا جائے گا جس میں دریائے سندھ پر پلوں کے سلسلے، مستقل چوکیوں، پولیس اسٹیشنوں، گشت اور افسران کی تعیناتی شامل ہے۔

پولیس سندھ کے ساتھ ساتھ 200 کلومیٹر طویل علاقے کو نشانہ بنائے گی جسے ماضی میں بدنام زمانہ گینگ محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرتے تھے۔

آخری 'نارملائزیشن' کے مرحلے میں حکومت خطے کی سماجی و اقتصادی ترقی پر توجہ دے گی، فیصلہ کیا گیا تھا کہ پنجاب حکومت ہسپتال، اسکول اور سڑکیں بنائے گی اور مقامی لوگوں کو روزگار بھی فراہم کرے گی۔

ڈپٹی انسپکٹر جنرل (آپریشنز) وقاص نذیر نے تصدیق کی کہ رحیم یار خان اور راجن پور اضلاع کے کچے کے علاقوں کو کلیئر کرنے کے لیے ایک بڑے اور جامع آپریشن کی منصوبہ بندی کی گئی ہے، انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے اتوار کے روز ایک اجلاس میں صوبائی پولیس کو دریائی علاقوں میں اپنی رٹ قائم کرنے کے لیے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لانے کی منظوری دی۔

انہوں نے کہا کہ اس بار حکومت نے ایک طویل المدتی منصوبہ تیار کیا ہے جس کا مقصد کئی دہائیوں پرانے عوامل کو حل کرنا ہے کیونکہ ان عوامل کو حل نہ کرنے کے نتیجے میں پولیس کی سابقہ ​​کارروائیوں کے بعد بھی ان دونوں اضلاع کے کچے کے علاقوں میں جرائم پیشہ عناصر دوبارہ ابھرتے رہے۔

ڈی آئی جی اور پنجاب پولیس کے ترجمان نے کہا کہ وزیراعظم نے آپریشن کو کامیاب اور ناقابل رسائی علاقوں میں زندگی کو معمول پر لانے کے لیے تکنیکی اور لاجسٹک سپورٹ کی یقین دہانی کرائی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: دفتر سے 'مغوی' بازیاب کرانے پر ڈائریکٹر جنرل ایکسائز کا پولیس پر اختیارات سے تجاوز کرنے کا الزام

اس سے قبل اپریل 2016 میں شہبازشریف کے وزارت اعلیٰ کے دور میں پولیس نے انہی کچے کے علاقوں میں اس وقت کے لاہور کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل صادق علی کی قیادت میں ایک بڑے زمینی آپریشن کا آغاز کیا تھا جسے ضربِ آہان کا نام دیا گیا تھا، ضلع راجن پور میں بدنام زمانہ چھوٹو گینگ کے خلاف آپریشن کو وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ رینجرز، محکمہ انسداد دہشت گردی اور فوج کی حمایت حاصل تھی، جس نے ہیلی کاپٹر گن شپ بھی فراہم کیے تھے۔

غلام رسول عرف چھوٹو نے بالآخر فورسز کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور ان دو درجن پولیس اہلکاروں کو رہا کر دیا تھا جنہیں گینگ نے اغوا کیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں