ریاستی اداروں کو بدنام کرنے کے خلاف تیسرے مقدمے میں بھی علی وزیر کی ضمانت منظور

اپ ڈیٹ 15 جولائ 2022
علی وزیر کی ایک اور مقدمے میں ضمانت منظور —فائل فوٹو: ٹوئٹر
علی وزیر کی ایک اور مقدمے میں ضمانت منظور —فائل فوٹو: ٹوئٹر

کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے خیبرپختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان سے منتخب گرفتار رکن قومی اسمبلی علی وزیر کو ریاستی اداروں کو بدنام کرنے اور عوام کو اکسانے کے خلاف تیسرے مقدمے میں بھی ضمانت منظور کر لی۔

پی ٹی ایم کے رہنماؤں علی وزیر، عالم زیب اور قاضی طاہر پر جنوری 2019 میں سہراب گوٹھ میں عوامی جلوس کے دوران سیکیورٹی اداروں کے خلاف مبینہ طور پر عوامی جذبات بھڑکانے والی تقریر کرکے غداری کا الزام عائد کیا گیا۔

انسداد دہشت گردی عدالت کے جج نے سنٹرل جیل کے اندر جوڈیشل کمپلیکس میں مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے دونوں طرف سے شواہد اور حتمی دلائل ریکارڈ کرنے کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ کیا۔

مزید پڑھیں:کراچی: رکن قومی اسمبلی علی وزیر سمیت 10 افراد پر غداری کے کیس میں فرد جرم عائد

فاضل جج نے علی وزیر کی ضمانت 5 لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض منظور کرتے ہوئے جیل حکام سے کہا کہ اگر کسی اور کیس میں علی وزیر کو تحویل میں رکھنے کی ضرورت نہ ہو تو انہیں فوری طور پر رہا کیا جائے۔

اے ٹی سی جج نے 25 جولائی کو ملزمان کے خلاف ترمیمی فرد جرم عائد کرنے اور ان لوگوں کی جائیداد قرق کرنے کی رپورٹ کے لیے کیس کی سماعت مقرر کی کی جو اس کیس میں مبینہ طور پر مفرور ہیں۔

رکن قومی اسمبلی علی وزیر کو مزید ایک اور مقدمے میں رہائی درکا ہوگی کیونکہ انہیں اور دیگر پارٹی رہنماؤں کو بوٹ بیسن پولیس اسٹیشن میں درج کیے گئے اسی طرح کے چوتھے مقدمے کا بھی سامنا ہے۔

استغاثہ کے مطابق علی وزیر، عالم زیب اور قاضی طاہر سمیت پی ٹی ایم کے دیگر رہنماؤں نے 20 جنوری 2019 کو الآصف اسکوائر کے عقب میں واقع گراؤنڈ میں ایک جلوس نکالا تھا اور عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے والی تقاریر کی تھی۔

خیبرپختونخوا سے گرفتار کیے گئے عالم زیب کو موجودہ کیس میں ٹرائل کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے ضمانت کی درخواستیں خارج کرنے کے بعد سپریم کورٹ نے ضمانت پر رہا کیا تھا جبکہ قاضی طاہر کو کراچی سے گرفتار کیا گیا تھا، ان کی بھی اس مقدمے میں ٹرائل کورٹ نے بعد از گرفتاری ضمانت منظور کر لی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: گرفتار رکن قومی اسمبلی علی وزیر ایک اور مقدمے میں قید

ملزمان کے خلاف ریاستی مدعیت میں دفعہ 147 (ہنگامہ آرائی)، 149 (غیر قانونی اسمبلی کا ہر رکن عام اعتراض کی کارروائی میں جرم کا مرتکب)، 186 (سرکاری ملازمین کو عوامی کاموں کی انجام دہی کے دوران رکاوٹ)، 153 (غیر ارادی طور پر اشتعال دلانا، فسادات کا سبب بننا) اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 500 (ہتک عزت) انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے سیکشن 7 (دہشت گردی کی کارروائیوں کی سزا) کے تحت سہراب گوٹھ تھانے میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

علی وزیر اور دیگر کو 31 دسمبر 2020 کو نفرت انگیز تقاریر، بغاوت اور عوام کو ریاست کے خلاف اکسانے سے متعلق چار مقدمات کے اندراج کے بعد گرفتار کرکے کراچی سینٹرل جیل منتقل کیا گیا تھا، ان کے خلاف میران شاہ تھانے میں اسی نوعیت کا پانچواں مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں