12 ممالک خطرے کی زد میں ہیں اور ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار ہیں۔ رائٹر نے ایک رپورٹ 16 جولائی کو جاری کی جس کے مطابق پاکستان ان 12 ممالک کی فہرست میں 9ویں نمبر پر ہے۔ پھر 17 جولائی کو پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ضمنی الیکشن ہوتے ہیں۔

ضمنی الیکشن میں کسی پاور سرکل کی حمایت کے بغیر کپتان اور اس کا بیانیہ ووٹر کے دل کو پسند آگیا۔ مسلم لیگ (ن) اپنی پاور بیس میں ہار گئی اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو غیر معمولی کامیابی نصیب ہوئی۔ یہاں تک تو جو ہوگیا وہ ہم سب جانتے ہیں، لیکن اہم ترین سوال یہ ہے کہ اس جیت ہار کے بعد اب کیا ہوگا؟

پہلی بات تو یہ ہے کہ انتخابات کے نتائج اکثریت کے لیے غیر متوقع رہے۔ پی ٹی وی الیکشن سیل سے منسلک احمد اعجاز اپنی فیس بک پوسٹ پر ضرور بتاتے رہے کہ پی ٹی آئی 14، 15 نشستیں جیت رہی ہے اور مسلم لیگ (ن) 4 سے 6 میں مضبوط ہے۔

مسلم لیگ (ن) کو اسی کے ووٹر، حمایتیوں اور سابق امیدواروں نے دھول چٹائی ہے۔ یہ ووٹر، حمایتی اور سابق ٹکٹ ہولڈر تب بھی میدان میں کھڑے ان لوٹوں سے پٹ رہے تھے جب قیادت خود باہر چلی گئی تھا۔ اب ان کاغذی شیروں کو ایسا بلا پھرا ہے جیسے پھرنے کا حق تھا۔

اس نتیجے کے بعد اخلاقی برتری لیتے ہوئے حکومت کو استعفیٰ دے کر عام انتخابات کا اعلان کرنا چاہیے لیکن یہ پاکستان ہے بھائی یہاں ایسا نہیں ہوتا۔

مزید پڑھیے: پنجاب کے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی نے مسلم لیگ (ن) کو شکست دے دی

پنجاب میں الیکشن جیت کر بھی کپتان کا مسئلہ حل نہیں ہوا کیونکہ وزیرِاعظم بننے کا راستہ نئے انتخابات کے ذریعے ہی آتا ہے۔ پنجاب کی جیت کو کپتان کیا کرے؟ پنجاب تو وہ بزدار سے چلا رہے تھے اور ممکن ہے کہ اب پرویز الہٰی وزیرِ اعلی بنیں گے یا شاید ان پر اعتراض اٹھ جائے، مگر کپتان کی انا کو سکون ملنے کے علاوہ حاصل وصول کیا ہے؟ جب تک وہ وزیرِاعظم نہیں بن جاتے سیاست کا میدان شاید یونہی گرم رہے گا۔

حکومت ان نتائج کا اعلان کرے تو مرتی ہے نہ کرے تو رٹ ٹکے کی نہیں رہتی۔ بارہ کوہ سے گولڑہ موڑ تک ناظم بنے شہباز شریف کیا کمال دکھائیں گے اور اگر کپتان کو دھرنا یاد آگیا تو پھر؟ اسلام آباد کے 3 طرف پنجاب ہے اور ایک طرف خیبر پختونخوا۔ اسلام آباد کی پولیس تو بریک لگائے بغیر دوڑنے میں مشہور ہے۔

المختصر سیاسی بحران جاری رہے گا۔ جو تھوڑا بہت سکون تھا وہ بھی گیا۔ نومبر میں نئے چیف نے آنا ہے۔ سر جی نے بس اس وقت پبلک میں قسم نہیں کھائی ورنہ ایکسٹینشن کا نہ ان کا ارادہ ہے نہ بنتی ہے۔ نہ اس کا کوئی فائدہ ہے کسی کو۔ کچھ لوگوں کے خیال میں تو پاکستان میں مشرف کیانی وقت دوبارہ چل رہا ہے۔

جنرل باجوہ اس وقت بیرونی دورے کر رہے ہیں۔ وہ اب امریکا بھی جا رہے ہیں۔ سعودی عرب اور قطر وہ ہو آئے ہیں۔ یاد رہے سعودی عرب میں ایک دورہ ان کا ایسا بھی تھا جب ولی عہد محمد بن سلمان سے ان کی ملاقات نہیں ہوسکی تھی۔ نائب وزیرِ دفاع سے ہی ملے تھے اور پھر یہی نائب وزیر دفاع پرنس خالد کچھ دن بعد نوازشریف سے لندن میں مل رہے تھے۔

اب جنرل باجوہ کو سعودی عرب میں ایوارڈ مل رہے ہیں۔ ان کی آؤ بھگت ہو رہی ہے۔ اگر روٹین کی صورتحال چل رہی ہو تو ہم سمجھیں کہ الوداعی دوروں پر ان کی خدمات کا برادر اور دوست ملک اعتراف کر رہے ہیں۔ لیکن اسلام آباد میں موجود سفارتی حلقے اچانک جنرل باجوہ کو مدبر وغیرہ کہنے لگ گئے ہیں۔

جنرل باجوہ کو سعودی عرب میں ایوارڈ مل رہے ہیں۔ ان کی آؤ بھگت ہو رہی ہے
جنرل باجوہ کو سعودی عرب میں ایوارڈ مل رہے ہیں۔ ان کی آؤ بھگت ہو رہی ہے

یہی حلقے کہہ رہے ہیں کہ ان کے دورہ امریکا کو یادگار ہونا چاہیے اور ان کی بہت آؤ بھگت ہونی چاہیے کہ جنرل باجوہ نے افغانستان سے امریکا اور اتحادیوں کا پُرامن انخلا ممکن بنایا۔ یہ انخلا کسی جانی نقصان کے بغیر ہوا۔ اس مدد پر پاکستان کو سراہا جاتا ہے اور اس کا اعتراف کیا جاتا ہے لیکن کپتان کا شکریہ جو یہ بتارہے تھے کہ افغانوں نے غلامی کی زنجیریں توڑ دیں۔ پھر ہوا یہ کہ ہماری کارکردگی کے اعتراف کے بجائے ہم پر غصہ بڑھا دیا گیا۔ کوئی کسر تھی تو امریکی سازش کا بیانیہ کتنا کام آیا ہوگا۔ صرف اندازہ ہی لگایا جاسکتا۔

مزید پڑھیے: امریکا نے عمران خان کے سازش کے دعووں کو پریشان کن قرار دے دیا

اب جب پنجاب میں ضمنی انتخابات کے نتائج آچکے ہیں تو عوامی رجحان کا اظہار ہوجانے کے بعد بھی ہم سیاسی استحکام کے بجائے عدم استحکام کی جانب جا رہے ہیں۔ نہ حکومت جا رہی اور نہ ہی جاسکتی ہے، اسی طرح نہ کپتان آیا ہے اور نہ فوری آسکتا ہے، یعنی لڑائی بڑھے گی اور سیاسی حربے استعمال ہوں گے۔

اس کا پہلا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہم جو ڈیفالٹ لسٹ میں 9ویں نمبر پر ہیں شاید اس میں فوری طور پر اوپر آجائیں۔ ہمارے دوست ملک بھی ہمیں پیسے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے بغیر دینے کو تیار نہیں تھے۔ جس کی وجہ بس یہ ہے کہ آئی ایم ایف قرضوں کی ادائیگیوں کو یقینی بناتا ہے اور کھاتوں پر نظر رکھتا ہے۔

صرف آئی ایم ایف کی قسط سے کام نہیں چلے گا کیونکہ اگر وہ قسط مل بھی جائے مگر ہمارے دوست ممالک ہماری مدد کو نہ آئے تو مسئلہ حل نہیں ہوگا اور ڈیفالٹ کا خطرہ برقرار رہے گا اور اگر کسی بھی وجہ سے قسط تاخیر کا شکار ہوگئی تو صورتحال پھر خراب ہی سمجھیے۔

ہمارے دوست ملک ہم سے ایک ہی بات کہہ رہے کہ ہم کسی عارضی انتظام کی مالی مدد نہیں کرسکتے۔ پیسے چاہئیں تو نظام کا تسلسل لاؤ۔ آپ کو لگتا ہے کہ تسلسل آیا ہے؟

اگر ہم ڈیفالٹ کی جانب جاتے ہیں اور ہمارے چاہنے والے دوست ممالک اس سے بچنے کے لیے ہماری مدد نہیں کرتے تو یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ اس کے بعد ہمارے ہاں سری لنکا قسم کی کیسی فلم چلے گی۔ اور کیا اس صورت میں عزیز ہم وطنو کے سوا کچھ اور راستہ نکل سکتا ہے؟

نومبر میں نئے چیف کی تعیناتی ہونی ہے لیکن نومبر بہت دُور ہے اور مسائل سر پر کھڑے ہیں۔ یہ تو اب ہو نہیں سکتا کہ یہ کام نومبر سے پہلے ہوجائے۔ تو کیا ہمارے حالات ہمیں نومبر تک کا وقت دیں گے؟ استحکام رہے گا؟ اتنا وقت اپوزیشن صبر کرے گی؟ سب سے بڑھ کر کہ کیا معیشت اس کی اجازت دیتی ہے؟ خود ایک جاتے ہوئے چیف کیا بڑے فیصلے لینے کی پوزیشن میں ہیں؟

جس جماعت کے لیے گزشتہ 4 دہائیوں سے پنجاب مرکز رہا ہو، وہاں اتنے اہم ضمنی انتخابات کے موقع پر اس جماعت کے لیڈر نوازشریف تمام معاملات سے لاتعلق اور خاموش کیوں رہے ہیں۔ کیا وہ یہ سب جانتے تھے؟

اللہ کرے یہ سب منحوس باتیں غلط ہوں۔ ہم مل بیٹھیں اور وہ کریں جو ہم نے آج تک نہیں کیا، یعنی ایک دوسرے کی سن لیں اور کوئی اچھا راستہ نکال لیں، کیونکہ اب اسی میں سب کی خیر اور بھلائی ہے۔

تبصرے (4) بند ہیں

ریاض Jul 18, 2022 05:49pm
بابے آپ نے نواز شریف کی خاموشی کے پیچھے راز نہیں بتایا، اور مشرف کیانی کا حوالا دیکر آگے نکل گئے. مطلب پردے کے پیچھے بہت کچھ ہو رہا ہے.
خورشیدندیم Jul 18, 2022 06:03pm
وسی بابا کا اسلوب تو منفرد ہے ہی،ان کا تجزیہ بھی پر مغز ہوتا ہے۔وسی بابا نے مستقبل کا جو نقشہ کھینچا ہے،وہ تشویش میں اضافہ کرتا ہے۔پاپولر ازم کی سیاست صرف بے یقینی پیدا ہو گی۔سیاسی استحکام ابھی کوسوں دور لگتا ہے۔
ہلال احمد Jul 18, 2022 06:05pm
میں اپنی رائے محفوظ رکھتا ہوں۔
ظفر محمود ڈار Jul 18, 2022 08:29pm
لگتا یہی ھے کہ ہم سری لنکا بننے جا رہے ہیں ملکی معاملات کو زاتی انا اور گلی محلے کے سے اختلافات کی طرز پر چلانے کا تین سال سات ماہ کا تجربہ اور نتائج ہمارے سامنے ہیں سیاسی اختلافات میں اس حد تک چلے جانا ملکی سطح کی قیادت کے دعوؤں میں شکوک پیدا کرتا ھے جس طرح خان صاحب نے وزارت عظمیٰ بھگتائی ھے اس طرح تو یونین کونسل بھی نہیں چلائی جا سکتی اور اب اوپر سے ضمنی الیکشن کے نتائج نے گویا اس اناء کی سیاست کی جیسے تائید کر دی ہو۔۔۔ان حالات میں اگر خاص طور پر تحریک انصاف کی قیادت نے تدبر اور حوصلے سے کام نہ لیا اور چور ڈاکو کی گردان کے ساتھ اناء کی جنگ جاری رکھی تو پھر پاکستان کو سری لنکا کی سی صورتحال کا شکار ہونے سے کوئی بھی نہیں روک سکے گا