اتحادی حکومت قبل از وقت انتخابات نہ کروانے کے مؤقف پر قائم

اپ ڈیٹ 19 جولائ 2022
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ہم پرویز الٰہی کو آسانی سے وزیراعلیٰ نہیں بننے دیں گے—فوٹو : پی آئی ڈی ویب سائٹ
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ہم پرویز الٰہی کو آسانی سے وزیراعلیٰ نہیں بننے دیں گے—فوٹو : پی آئی ڈی ویب سائٹ

پنجاب کے اہم ضمنی انتخابات میں زبردست کامیابی کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے قبل از وقت عام انتخابات کے مطالبے کے جواب میں حکمران اتحاد کی 2 اہم جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے واضح کیا کہ قومی اسمبلی آئندہ سال کے وسط تک اپنی مدت پوری کرے گی اور انتخابی اصلاحات اور معیشت سنبھلنے کے بعد ہی عام انتخابات کروائے جائیں گے۔

تاہم ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کے ہاتھوں شکست کے بعد حکمت علمی کے جائزے اور دستیاب آپشنز پر مشاورت کے لیے وزیراعظم شہباز شریف نے تمام اتحادی جماعتوں کی قیادت کو آج لاہور مدعو کیا ہے۔

گزشتہ روز ماڈل ٹاؤن لاہور میں وزیر اعظم شہباز کی زیر صدارت مسلم لیگ (ن) کے اہم رہنماؤں کے اجلاس کے بعد وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے اشارہ دیا کہ مسلم لیگ (ن) اگست 2023 میں موجودہ اسمبلی کی مدت پوری ہونے کے بعد عام انتخابات کے انعقاد کے مؤقف پر قائم رہے گی۔

یہ بھی پڑھیں: ایک ہی راستہ ہے صاف و شفاف انتخابات کرائیں، الیکشن کمشنر مستعفی ہو، عمران خان

وزیر داخلہ نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ’قبل از وقت انتخابات کرانے کا فیصلہ تمام اتحادی جماعتوں کی مشاورت سے کیا جائے گا، تاہم مسلم لیگ (ن) کا نقطہ نظر تبدیل نہیں ہوا، عام انتخابات حکومت کی مدت پوری ہونے کے بعد ہونے چاہئیں‘۔

رانا ثنا اللہ اور وفاقی وزیر جاوید لطیف نے کہا کہ اگر چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کر دیں تو ان کی پارٹی نئے انتخابات کے انعقاد پر غور کر سکتی ہے، رانا ثنا اللہ نے عمران خان کی الیکشن کمیشن پر تنقید کے ردعمل میں کمیشن ارکان کے ساتھ حکومت کی حمایت کا بھی اظہار کیا۔

علاوہ ازیں وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا کہ وزیراعظم کی دعوت پر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور اتحادی جماعتوں کا اجلاس آج لاہور میں نواز شریف کی رہائش گاہ پر ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ’ان جماعتوں کی قیادت اہم اور قومی مسائل پر غور کرے گی، سربراہ مسلم لیگ (ن) نواز شریف لندن سے ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شریک ہوں گے۔

مزید پڑھیں: عمران خان کا ضمنی انتخابات میں برتری کے بعد شفاف انتخابات کا مطالبہ

پارٹی ذرائع نے بتایا کہ مسلم لیگ (ن) اور اس کے 2 اہم اتحادی پی پی پی اور جے یو آئی-ف عمران خان کے قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 'پی ٹی آئی چیئرمین کو اس معاملے پر بات چیت کی پیشکش کی جا سکتی ہے لیکن مخلوط حکومت وہی فیصلہ کرے گی جو اس کے لیے مناسب ہو گا'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس وقت عمران خان کے مطالبے کو ماننے کا مطلب پی ٹی آئی کو دوبارہ اقتدار میں آنے کی اجازت دینا ہے کیونکہ اس کے سربراہ کی مقبولیت کا گراف مسلسل بڑھ رہا ہے اور پنجاب کے ضمنی انتخابات کے نتائج اس کا ثبوت ہیں‘۔

انہوں نے کہا ’علاوہ ازیں حکمران اتحاد تاحال معیشت کو سنبھال نہیں سکا ہے جو کہ انتخابی اصلاحات کے علاوہ عمران خان کی حکومت کو گرا کر اقتدار سنبھالنے کی اہم وجہ ہے، ان اہداف کے پورا ہونے تک حکمران اتحاد قبل از وقت انتخابات کرانے پر راضی نہیں ہوسکتا۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب کے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی نے مسلم لیگ (ن) کو شکست دے دی

دوسری جانب پارٹی اجلاس کے دوران وزیراعظم کو ضمنی انتخابات میں پنجاب اسمبلی کی 20 میں سے 15 نشستوں پر مسلم لیگ (ن) کی شکست کی وجوہات سے آگاہ کیا گیا۔

مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنما نے بتایا کہ ’اجلاس میں پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کو ٹکٹ دینا، پیٹرولیم اور بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے کے غیر مقبول فیصلے، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اس سے متعلقہ معاملات کو شکست کی اہم وجوہات قرار دیا گیا‘۔

حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ کا عہدہ بچانے کیلئے ممکنہ اقدامات پر غور

وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کی پارٹی رہنماؤں نے حمزہ شہباز کے وزارت اعلیٰ کے عہدے کو بچانے کے لیے ممکنہ اقدامات پر بھی بات چیت کی۔

ایوان میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے درکار 11 نشستیں جیتنے میں ناکام رہنے کے بعد موجودہ وزیر اعلیٰ کا پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے مشترکہ امیدوار چوہدری پرویز الٰہی سے ہارنا یقینی ہوگیا ہے جن کے پاس اب 188 ارکان ہیں۔

مزید پڑھیں: عمران خان آ گئے'، صحافیوں، سیاستدانوں کی تحریک انصاف کو مبارکباد

رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ’ہم پرویز الٰہی کو آسانی سے وزیراعلیٰ نہیں بننے دیں گے، اگر 22 جولائی کو ووٹنگ کے روز پی ٹی آئی کے 5 سے 7 ارکان اسمبلی میں نہ آئے تو پی ٹی آئی کا وزیراعلیٰ کیسے بنے گا؟

اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ (ن) پی ٹی آئی کے چند اراکین اسمبلی کو مختلف کیسز میں گرفتار کرنے پر غور کر رہی ہے یا ان میں سے کچھ کو لالچ دے کر ووٹنگ سے باز رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔

دریں اثنا نواز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن نے ایک دوسرے سے فون پر علیحدہ علیحدہ بات چیت کی اور پی ٹی آئی کی جیت کے بعد کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔

ذرائع کے مطابق تینوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ قبل از وقت عام انتخابات کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ تمام اتحادی جماعتوں کی مشاورت سے کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: حمزہ شہباز کا انتخاب: ’دیکھنا ہوگا آرٹیکل 63-اے کی تشریح ان حالات میں لاگو ہوگی یا نہیں؟‘

ذرائع کا کہنا تھا کہ 9 جماعتوں کی مخلوط حکومت کو ایسا کوئی فیصلہ جلد بازی یا عمران خان کے دباؤ میں نہیں کرنا چاہیے۔

دریں اثنا کراچی میں مسلم لیگ (ن) کی اہم اتحادی جماعت پی پی پی نے اہم انتخابی اصلاحات اور آئینی ترامیم کے لیے قومی اسمبلی کی مدت پوری کرنے پر زور دیتے ہوئے اس آزمائش کی گھڑی میں اتحادیوں کے ساتھ کھڑے رہنے کا عزم ظاہر کیا۔

یہ عزم وزیر خارجہ اور چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کی زیر صدارت پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی (سی ای سی) کے اجلاس میں سامنے آیا جہاں سینئر رہنماؤں نے سیاسی صورتحال اور وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت کی اب تک کی کارکردگی پر تبادلہ خیال کیا۔

انہوں نے پارٹی کی مستقبل کی حکمت عملی اور پنجاب میں اپنے آپ کو دوبارہ فعال کرنے کے منصوبے کے بارے میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا جہاں پی ٹی آئی نے دوبارہ قدم جمالیے ہیں اور مسلم لیگ (ن) کو اس کے گڑھ میں شکست دے دی ہے۔

مزید پڑھیں: وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے دوبارہ انتخاب ہو رہا ہے، فریقین تحفظات دور کرلیں، لاہور ہائیکورٹ

باخبر ذرائع نے بتایا کہ اجلاس میں موجود شرکا تقریباً اس بات پر متفق تھے کہ پی پی پی کو قبل از وقت انتخابات کی حمایت نہیں کرنی چاہیے جو کہ پی ٹی آئی کا مطالبہ ہے۔

2 گھنٹے سے زائد جاری رہنے والے اجلاس میں موجودہ اسمبلی کی مدت کے بارے میں واضح رائے کے ساتھ آج وفاقی حکومت کے اتحادیوں کے رہنماؤں کے لاہور میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کے فیصلے کی بھی منظوری دی گئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں