کراچی: صوبائی وزیر تعلیم سے مذاکرات کے بعد اساتذہ کا احتجاج ختم، خاتون کانسٹیبل معطل

19 جولائ 2022
گزشتہ روز اساتذہ کو سخت تشدد کا نشانہ بنا کر گرفتار کیا گیا تھا—فوٹو: ڈان نیوز
گزشتہ روز اساتذہ کو سخت تشدد کا نشانہ بنا کر گرفتار کیا گیا تھا—فوٹو: ڈان نیوز

کراچی پریس کلب کے سامنے نوکریوں کی ریگولرائزیشن کے لیے احتجاج کرنے والے اساتذہ نے وزیر تعلیم سندھ سید سردار علی شاہ سے مذاکرات کے بعد احتجاجی دھرنا ختم کر دیا اور اساتذہ پر تشدد کرنے والی خاتون کانسٹیبل کو معطل کردیا گیا۔

گزشتہ روز پریس کلب کے سامنے احتجاج کرنے کے بعد جیسے ہی اساتذہ نے وزیر اعلیٰ ہاؤس کی طرف مارچ کرنے کی کوشش کی تو پولیس نے ان پر لاٹھی چارج کرکے متعدد خواتین اور مرد اساتذہ کو گرفتار کیا تھا جبکہ ایک خاتون استاد کے ساتھ بدسلوکی کرنے والی خاتون پولیس کانسٹیبل کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے لگی تھی۔

آج صوبائی وزیر تعلیم سید سردار علی شاہ نے مذاکرات کے لیے اساتذہ کے وفد کو مدعو کیا تھا، جس کے بعد ایس ایس پی ساؤتھ اسد رضا نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ وزیر تعلیم کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی کے بعد اساتذہ نے اپنا احتجاج ختم کردیا ہے۔

مزید پڑھیں:جامعہ کراچی کے اساتذہ کا آئی بی اے کے طلبہ کے مبینہ تشدد کےخلاف احتجاج

وزیر تعلیم کے ترجمان سعید میمن نے ایک تفصیلی بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ وزیر تعلیم کے ساتھ مذاکرات ہونے کے بعد اساتذہ نے کراچی پریس کلب کے سامنے اپنا احتجاج ختم کردیا ہے۔

ایس ایس پی صدر علی مردان کھوسو نے بتایا کہ محکمہ تعلیم کے حکام نے اساتذہ سے وعدہ کیا ہے کہ ایک مہینے کے اندر ان کے مطالبات تسلیم کیے جائیں گے۔

خاتون کانسٹیبل معطل

ایس ایس پی نے کہا کہ اساتذہ کو تشدد کا نشانہ بنانے والی خاتون کانسٹیبل کو معطل کردیا گیا ہے اور ان کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی بھی شروع کردی گئی ہے۔

علاوہ ازیں پولیس ترجمان نے خاتون کانسٹیبل کے اس عمل پر اپنے بیان میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایک فرد کے عمل پر پورے محکمے کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ احتساب کا عمل جاری رہتا ہے لیکن اس معاملے میں خاتون کانسٹیبل کو کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں:میں ہرگز نہیں چاہتا کہ استاد میرے بچے کو مارے، لیکن ...

واقعے کی وضاحت کرتے ہوئے پولیس ترجمان نے کہا کہ اساتذہ نے پرامن احتجاج ختم کرکے ریڈ زون میں داخل ہونے کی کوشش کی تو پولیس نے انہیں مزید آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے حفاظتی تحویل میں لے لیا۔

انہوں نے کہا کہ بعد میں تمام اساتذہ کو اس شرط پر رہا کردیا گیا تھا کہ وہ اپنا احتجاج کا دائرہ پریس کلب تک محدود رکھتے ہوئے ریڈ زون میں داخل ہونے کی کوشش نہیں کریں گے۔

پولیس ترجمان نے کہا کہ سندھ پولیس کے افسران اور ملازمین نے اس تشدد کو قابل مذمت اور ناقابل برداشت تصور کیا ہے۔

اساتذہ نے صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے مطلوبہ ٹیسٹ پاس کیا اور انہیں 2018 میں کنٹریکٹ کی بنیاد پر تعینات کیا گیا تھا لیکن تین سال گزرنے کے باوجود ان کی نوکریوں کو ریگولرائز نہیں کیا جا رہا جس پر انہوں نے احتجاج شروع کیا ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ پرامن احتجاج کر رہے تھے لیکن پولیس نے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا اور خواتین سمیت ان کے ساتھیوں کو حراست میں لے لیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں