رانیل وکرماسنگھے سری لنکا کے نئے صدر منتخب

اپ ڈیٹ 20 جولائ 2022
رانیل وکرماسنگھے کو 225 نشستوں کے ایوان میں 134 ووٹ ملے— فائل فوٹو: رائٹرز
رانیل وکرماسنگھے کو 225 نشستوں کے ایوان میں 134 ووٹ ملے— فائل فوٹو: رائٹرز

سری لنکا کے چھ مرتبہ کے سابق وزیراعظم رانیل وکرماسنگھے ملک کے نئے صدر منتخب ہوگئے ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق رانیل وکرماسنگھے نے گوٹابایا راجاپکسے کی جگہ صدارت سنبھالی ہے جنہوں نے گزشتہ ہفتے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور بحران سے دوچار ملک سے باہر چلے گئے تھے۔

مزید پڑھیں: رانیل وکرما سنگھے سری لنکا کے نئے وزیر اعظم منتخب

سرکاری نتائج کے مطابق رانیل وکرماسنگھے کو 225 نشستوں کے ایوان میں 134 ووٹ ملے اور یوں انہوں نے سادہ اکثریت حاصل کر لی، ان کے مرکزی حریف دولس الہاپروما کو 82 ووٹ ملے جبکہ بائیں بازو کے امیدوار انورا دسانائیکے کو صرف 3 ووٹ ملے۔

بدھ کو اراکین اسمبلی ایک ایک کر کے پولنگ بوتھ میں داخل ہوئے تاکہ وہ اپنی پسند کے امیدوار کو ووٹ دے سکیں۔

پارلیمانی سیکریٹری جنرل دھمیکا داسانائیکا نے کہا کہ اراکین کو یاددہانی کرائی گئی تھی کہ بیلٹ پیپر کی تصویر لینا یا دوسروں کو دکھانا جرم ہے۔

واضح رہے کہ سری لنکا کے سابق انتخابات کرپشن اور ووٹ خریدنے جیسے الزامات کی نذر ہوگئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: سری لنکا: مظاہرین نے صدارتی محل، وزیر اعظم دفتر سمیت سرکاری عمارات خالی کردیں

رانیل وکرماسنگھے سوا 2 کروڑ آبادی کے ملک کی صدارت ایک ایسے موقع پر سنبھالیں گے جب ملک میں خریداری کے لیے ڈالر کی شدید کمی ہے اور اشیائے خورونوش کے ساتھ ساتھ ایندھن اور ادویہ کی بھی شدید قلت ہے۔

پارلیمنٹ کے باہر پولیس اور فوج کے سیکڑوں مسلح دستے موجود تھے لیکن خلاف توقع مظاہرین نہ تھے۔

راجاپکسے کو سابق صدر کا اتحادی تصور کیا جارہا تھا اس لیے مظاہرین دولس الہاپروما کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے اور ان کی جیت کے امکانات بھی ظاہر کیے گئے تھے، البتہ وہ کسی بڑے عہدے پر آج تک تعینات نہیں رہے تھے۔

225 رکنی پارلیمنٹ میں رانیل وکرماسنگھے کو راجاپکسے کی ایس ایل پی پی کی حمایت حاصل تھی جس کے پاس پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ نشستیں ہیں اور یہی حمایت آج ان کی کامیابی کی وجہ بنی۔

یاد رہے کہ سری لنکا کو تاریخ کے بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے جس کے خلاف کئی ماہ سے احتجاج جاری ہے۔

مزید پڑھیں: سری لنکا: نئے صدر کے لیے پارلیمنٹ میں ووٹنگ سے قبل ایمرجنسی نافذ

گزشتہ ہفتے یہ احتجاج شدت اختیار گیا تھا اور عوام نے صدر سے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے ان کے محل کا گھیراؤ کر لیا تھا جس کے بعد گوٹابایا راجاپکسے عہدے سے استعفیٰ دے کر سنگاپور چلے گئے تھے۔

راجاپکسے کی اقتدار سے رخصتی کے ساتھ ہی سری لنکا میں دو دہائی سے اقتدار میں موجود طاقتور حکمراں جماعت کا زوال شروع ہوتا نظر آرہا ہے جہاں اس سے قبل ان کے بھائی اور وزیر خزانہ نے بھی اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

قائم مقام صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد رانیل وکرماسنگھے نے ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کرتے ہوئے تمام تر اختیارات قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دے دیے تھے اور گزشتہ ہفتے ان دستوں کو سرکاری عمارتوں میں داخل ہونے والے مظاہرین سے عمارتیں خالی کرانے کا حکم دیا تھا۔

پارلیمنٹ میں رانیل وکرماسنگھے کی کامیابی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ایک اپوزیشن کے رکن اسمبلی نے کہا کہ مظاہرین کے خلاف سخت گیر موقف کو اراکین اسمبلی نے نیک شگون تصور کرتے ہوئے وکرماسنگھے کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں: سری لنکن صدر مالدیپ فرار، وزیراعظم نے ملک میں ایمرجنسی اور کرفیو نافذ کردیا

سیاسی مبصر کوشل پریرا نے اس بات کا اعتراف کیا کہ 2020 کے الیکشن میں صرف ایک نشست جیتنے کے باوجود 73 سالہ رانیل وکرماسنگھے کو ان پارلیمانی انتخابات میں کچھ برتری حاصل تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ رانیل وکرماسنگھے نے گیس سمیت کچھ اہم مصنوعات کی ترسیل بحال کر کے مڈل کلاس طبقے کا کسی حد تک اعتماد جیت لیا تھا اور اپنی اہلیت ثابت کرتے ہوئے مظاہرین سے سرکاری عمارتیں بھی خالی کرا لی تھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں