آزادی مارچ مقدمات: عمران خان کی عبوری ضمانت میں 30 جولائی تک توسیع

اپ ڈیٹ 21 جولائ 2022
عدالت نے کہا کہ عمران خان کے لیے یہ لازمی تھا کہ وہ کوہسر تھانے پر 425 مقدمے میں عدالت میں پیش ہوتے —فائل فوٹو: ڈان نیوز
عدالت نے کہا کہ عمران خان کے لیے یہ لازمی تھا کہ وہ کوہسر تھانے پر 425 مقدمے میں عدالت میں پیش ہوتے —فائل فوٹو: ڈان نیوز

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی 25مئی کو لانگ مارچ کے دوران تشدد اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے 11 مقدمات میں عبوری ضمانت میں 30 جولائی تک توسیع کر دی۔

سابق وزیر اعظم عمران خان نے 25 مئی کو آنے والے پُرتشدد واقعات پر وفاقی دارالحکومت کے تھانوں آبپارہ، کوہسار، کراچی کمپنی، گولڑہ، ترنول اور تھانہ سیکریٹریٹ میں درج 11 ایف آئی آرز میں عبوری ضمانت کے حصول کے لیے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ (غربی) کے جج کامران بشارت مفتی کے سامنے ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست دی تھی۔

مزید پڑھیں: لانگ مارچ میں توڑ پھوڑ کے مقدمات: عمران خان کی ضمانت میں21 جولائی تک توسیع

اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں ان کی درخواست پر آج سماعت ہوئی لیکن عمران خان عدالت میں پیش نہیں ہوئے جبکہ جونیئر وکیل رائے تجمل نے عدالت کو بتایا کہ تحریک انصاف کے چیئرمین لاہور میں ہیں اور ان کے وکیل بابر اعوان بیرون ملک گئے ہیں اس لیے وہ عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے، جس پر جج نے کہا کہ یہ عمران خان کے لیے اہم تھا کہ وہ عدالت میں پیش ہوتے۔

عدالت نے کہا کہ عمران خان کے لیے یہ لازمی تھا کہ وہ کوہسار تھانے میں مقدمہ نمبر 425 میں عدالت میں پیش ہوتے جس میں سابق وزیراعظم کے خلاف غداری کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

معزز جج نے زور دیا کہ اس مقدمے میں نئی ضمانت دینے کی ضرورت ہے اور میں اس وقت یہ احکامات جاری کروں گا جب ملزم عدالت میں حاضر ہوگا۔

جس پر عمران خان کے وکیل نے عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ ان کا مؤکل آئندہ سماعت پر عدالت کے سامنے پیش ہوں گے جو 30 جولائی کو ہوگی۔

عدالت نے چیئرمین تحریک انصاف کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے 11 مقدمات میں عبوری ضمانتوں میں 30 جولائی تک توسیع کر دی۔

عمران خان کے خلاف دائر مقدمات

خیال رہے کہ 25 مئی کو سابق وزیر اعظم عمران خان نے اسلام آباد کی طرف ’آزادی مارچ‘ کیا تھا جس میں پرتشدد واقعات بھی ہوئے جبکہ عوامی و سرکاری املاک کو بھی شدید نقصان پہنچا تھا جس کے بعد 26 مئی کی رات 1 بجکر 50 منٹ پر دارالحکومت کے تھانہ کوہسر پر سب انسپیکٹر آصف رضا کی شکایت پر پاکستان پینل کوڈ کے دفعات دفعہ 109 , 148 ،149، 186، 188، 353 ، 427 کے تحت مقدمات درج کیے گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: لانگ مارچ کے دوران توڑ پھوڑ کے مقدمات: پی ٹی آئی رہنماؤں کی عبوری ضمانت منظور

ایف آئی آر میں سب انسپکٹر آصف رضا نے کہا تھا کہ رات کو گیارہ بجے وہ پولیس اہلکاروں کے ہمراہ جناح اوینیو چوک پر گشت پر گئے ہوئے تھے تو اسی دوراں اچانک تحریک انصاف کے 100 سے 150 کارکنان پارٹی جھنڈوں کے ساتھ ایکسپریس چوک کی طرف بڑھے۔

انہوں نے کہا تھا کہ وفاقی دارالحکومت میں دفعہ 144 نافذ ہونے پر پولیس نے تحریک انصاف کے کارکنان اور حامیوں کو روکنے کی کوشش کی مگر انہوں نے پولیس کی کوئی بات سننے کے بجائے پولیس اہلکاروں کو پتھر مارنا شروع کیے اور درختوں کو جلایا۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان اور تحریک انصاف کی دیگر قیادت کے حکم پر ایسا عمل کرنے والے 36 کارکنان کو حراست میں لیا گیا تھا۔

تاہم، دوسری ایف آئی آر سب انسپکٹر غلام سرور کی شکایت پر رات گئے 3 بجکر 20 منٹ پر متعلقہ دفعات کے تحت درج کی گئی تھی۔

پولیس اہلکار غلام سرور نے ایف آئی آر میں کہا تھا کہ وہ کچھ پولیس اہلکاروں کے ہمرام رات کو ساڑھے بارہ بجے ایکسپریس چوک پر گشت پر تھے تو اسی دوران تحریک انصاف کے 150 کارکنان مبینہ طور پر ہاتھوں میں راڈ اور آتشی مادہ لے کر نعرے لگاتے رہے لوگوں کو اکساتے ہوئے جیو چوک پر درختوں اور میٹرو بس سروس اسٹیشن کو نظر آتش کردیا۔

انہوں نے کہا تھا کہ پولیس نے مشتعل ہجوم کو منتشر کرنے کی کوشش کی مگر تحریک انصاف کے کارکنان نے پولیس پر پتھراؤ کیا اور سرکاری املاک کو نظر آتش کرتے ہوئے نقصان پہنچایا جس کے بعد 39 کارکنان کو گرفتار کیا گیا تھا۔

دریں اثنا، 28 مئی کو ڈان کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ تحریک انصاف کی قیادت بشمول عمران اور دیگر کارکنان کے خلاف لوئی بھیر، سیکرٹریٹ پولیس، آب پارہ پولیس، گولڑہ پولیس، بھارہ کہو پولیس ، ترنول پولیس، اور کورال پولیس کی جانب سے پاکستان پینل کوڈ کی مختلف دفعات کے تحت مزید 11 مقدمات درج کیے گئے تھے۔

حقیقی آزادی مارچ

عمران خان کے 25 کو ہونے والے ’حقیقی آزادی مارچ‘ کو روکنے کے لیے حکام نے دفعہ 144 نافذ کی تھی جس کے تحت 4 سے زائد افراد جمع نہیں ہو سکتے جس کا مقصد اجتماعات کو روکنا ہے، تاہم حکام نے عمرن خان کے مارچ کو روکنے کے لیے اہم شاہراہوں پر شپنگ کنٹینرز رکھ کر انہیں اسلام آباد میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کی تھی۔

مزید پڑھیں: آزادی مارچ کے بعد دائر مقدمات ختم کروانے کیلئے پی ٹی آئی کی کمیٹی تشکیل

حکام کی طرف سے لگائے کنٹنیرز کا خوف کیے بغیر مارچ کے شرکا نے تمام رکاوٹوں کو عبور کرکے اسلام آباد میں داخل ہوئے تھے جس پر پولیس نے ان کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج کرنے کے ساتھ ساتھ آنسوں گیس اور شیلنگ کا ستعمال کیا تھا۔

اس دوراں۔ ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے فوٹیج میں زمین سے دھواں اٹھتا اور اسلام آباد کی مرکزی شاہراہوں سے ملحقہ گرین بیلٹس میں آگ لگتی دکھائی دے رہی تھی۔

حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ آگ تحریک انصاف کے حامیوں نے لگائی تھی جب کہ پی ٹی آئی کا دعویٰ تھا کہ آگ پولیس کی شیلنگ کی وجہ سے لگی تھی، تاہم ان دونوں میں کسی کی بھی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہو سکی۔

تبصرے (0) بند ہیں