قبائلی اضلاع میں جنگلات کے تحفظ و انتظام کا بل صوبائی اسمبلی سے منظور

اپ ڈیٹ 23 جولائ 2022
سابقہ ​​فاٹا میں قدرتی جنگلات سمیت جنگلات کی ملکیت مقامی قبائل اور برادریوں کے پاس ہوگی— فائل فوٹو: اے پی پی
سابقہ ​​فاٹا میں قدرتی جنگلات سمیت جنگلات کی ملکیت مقامی قبائل اور برادریوں کے پاس ہوگی— فائل فوٹو: اے پی پی

خیبر پختونخوا جنگلات (ترمیمی) بل 2022 کو جمعہ کو صوبائی اسمبلی نے منظور کر لیا تاکہ مقامی جنگلات کے تحفظ اور انتظام کے لیے قبائلی اضلاع میں ترامیم کے ساتھ موجودہ فاریسٹ آرڈیننس، 2002 میں توسیع کی جا سکے۔

ٖڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ترمیم شدہ ایکٹ کے تحت شیڈول 3 کو موجودہ جنگلات کے آرڈیننس میں شامل کیا گیا ہے جو قبائلی اضلاع پر 10سال کی مدت کے لیے لاگو ہو گا۔

مزید پڑھیں: خیبر پختونخوا: جنگلات میں مختلف مقامات پر آتشزدگی، ریسکیو آپریشن جاری

موجودہ جنگلاتی وسائل کو کئی زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں جنگلات، نجی جنگلات، مشترکہ طور پر منظم اجتماعی جنگلات اور سماجی طور پر منظم جنگلات شامل ہیں۔

ایک سینئر افسر نے کہا کہ قبائلی اضلاع میں جنگلات کو منظم اور ان کی حفاظت کے لیے محکمہ جنگلات کو انتظامی کردار سونپا گیا ہے اور متعلقہ محکمہ جنگلات کے تحفظ کے لیے شجرکاری اور دیگر سرگرمیاں انجام دے گا۔

ترمیم شدہ ایکٹ کے تحت انہوں نے کہا کہ سابقہ ​​فاٹا میں قدرتی جنگلات سمیت جنگلات کی ملکیت مقامی قبائل اور برادریوں کے پاس ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ محکمہ جنگلات مقامی برادریوں کو جنگلات کے بہتر انتظام کے لیے تکنیکی مدد فراہم کرے گا اور شجر کاری کرے گا، ترمیم شدہ ایکٹ قبائل کے مقامی رسم و رواج اور روایات پر مبنی ہے۔

ذرائع نے اصرار کیا کہ ترمیم شدہ ایکٹ تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول قبائلی عمائدین اور کمیونٹیز کو شامل کرنے کے بعد ڈیزائن کیا گیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ تمام قبائلی اضلاع میں جرگے منعقد کیے گئے اور اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: خیبر پختونخوا میں جنگلات کے رقبے میں 4 فیصد اضافہ ہوا، عمران خان

سابق فاٹا کو 2018 میں آئین کے ذریعے خیبرپختونخوا میں ضم کیا گیا تھا تاہم جنگلات کے آرڈیننس کو علاقے تک نہیں بڑھایا گیا۔

انضمام سے پہلے قبائل مقامی رسم و رواج جیسے کہ بندھر، سلویشتائی اور کومی ترون کے ذریعے جنگلات کی حفاظت کرتے ہیں۔

متحدہ مجلس عمل سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن کے ایم پی اے عنایت اللہ خان نے ترمیم پر تحفظات کا اظہار کیا اور وزیر ماحولیات سید اشتیاق ارمر سے کہا کہ وہ اس ترمیم کی منظوری سے قبل اس حوالے سے درپیش مسائل کی وضاحت کریں۔

انہوں نے کہا کہ مالاکنڈ ڈویژن کے لوگوں کے بھی جنگلات سے متعلق کچھ مسائل ہیں، اس لیے متعلقہ وزیر کو چاہیے کہ وہ قبائلی اضلاع کو کچھ چھوٹ دینے کی وجوہات بتائیں نہ کہ مالاکنڈ کو۔

رکن اسمبلی نے یہ بھی کہا کہ اگر حکومت کسی علاقے کو قومی پارک قرار دینے کا فیصلہ کرتی ہے تو اسے یہ بھی بتانا چاہیے کہ یہ پارک مقامی عوام کے حقوق کے تحفظ میں کس طرح مدد کرے گا۔

مزید پڑھیں: خیبرپختونخوا: مرغزار کے پہاڑوں پر آتشزدگی، ریسکیو آپریشن جاری

وزیر نے ایوان کو بتایا کہ جنگلات کے آرڈیننس میں ترامیم کے بنیادی مقاصد صوبے میں جنگلات سے متعلق مختلف جرائم کے لیے جرمانے میں اضافہ، ایکٹ کی خلاف ورزیوں پر قابو پانا اور جنگلاتی وسائل کی حفاظت کرنا ہے۔

نئے قانون میں کہا گیا ہے کہ غیر قانونی کٹائی، آرے سے کاٹنے، تبدیل کرنے، حاصل کرنے، ذخیرہ کرنے، فروخت کرنے، نقل و حمل، درختوں اور لکڑیوں کو ہٹانے اور ان جنگلات سے جنگلاتی پیداوار کو جمع کرنے، تیار کرنے اور ہٹانے اور کسی بھی اوزار، آلات، گاڑیوں، کشتیوں کا استعمال، شیڈول III میں مذکور جنگلات کے تمام زمروں میں گاڑیاں، پیک جانوروں، کنوینسز، پاور آرا اور آرا یونٹ ممنوع ہوں گے۔

اگر جنگلات کے حقوق کے اسٹیک ہولڈرز کے مابین کوئی تنازع پیدا ہوتا ہے تو معاملہ ڈی آر سی کو بھیجا جائے گا جو کہ متعلقہ ڈپٹی کمشنر (چیئرمین)، ڈی ایف او اور نمائندوں یا عمائدین پر مشتمل ہوگا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں