خیبرپختونخوا: مرغزار کے پہاڑوں پر آتشزدگی، ریسکیو آپریشن جاری

اپ ڈیٹ 12 جون 2022
خیبرپختونخوا میں 15 روز کے دوران آگ لگنے کے 200 سے زائد واقعات پیش آچکے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز
خیبرپختونخوا میں 15 روز کے دوران آگ لگنے کے 200 سے زائد واقعات پیش آچکے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز

خیبر پختونخوا میں واقع مرغزار کے پہاڑی سلسلے پر بڑے پیمانے پر آگ بھڑک اٹھی، ریسکیو ٹیمیں آگ بجھانے میں مصروف ہیں۔

ترجمان ریسکیو 1122 شفیقہ گل نے کہا کہ آگ پہاڑی سلسلے کے بالائی حصے پر لگی تھی، اہلکار گزشتہ روز سے آگ بجھانے کے عمل میں مصروف ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ریسکیو 1122 کے 45 سے زائد اہلکار آگ بجھانے میں مصروف ہیں، آگ پر قابو پانے کے لیے پہاڑوں پر گھنٹوں مسافت کرنے کے بعد آپریشن شروع کیا گیا۔

ترجمان نے بتایا کہ ریسکیو اہلکاروں نے طویل جدوجہد کے بعد 80 فیصد آگ پر قابو پالیا ہے لیکن مکمل طور پر آگ پر قابو پانے کے لیے ریسکیو آپریشن اب بھی جاری ہے، جبکہ حفاظتی طور پر رہائشی علاقوں کے قریب فائر وہیکلز اور فائر فائٹرز بھی تعینات کردیے گئے ہیں۔

مزید پڑھیں: خیبرپختونخوا: شانگلہ کے جنگلات میں مزید دو مقامات پر آگ بھڑک اٹھی

وادی مرغزار سطح سمندر سے 7 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے، علاقے کے درخت اور ہرے بھرے پہاڑ سیاحوں اور مقامی لوگوں کے لیے پکنک کا پُرکشش منظر پیش کرتے ہیں۔

دریں اثنا اتوار کی صبح خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ میں ایک اور آگ لگنے کی اطلاع ملی ہے۔

سب ڈویژنل افسر فاریسٹ زاہد حسین نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ چکیسر تحصیل میں داوت کے قریب صبح 10 بجے کے قریب آگ لگی تھی۔

انہوں نے مزید کہا کہ محکمہ جنگلات اور ریسکیو 1122 کی ٹیمیں آگ بجھانے کے لیے علاقے میں پہنچ گئی ہیں۔

خیال رہے خیبر پختونخوا کے جنگلات میں گزشتہ 15 روز سے مختلف مقامات پر آتشزدگی کا سلسلہ جاری ہے۔

دو ہفتے کے دوران جنگلات میں آگ لگنے کے 200 سے زائد واقعات

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا میں گزشتہ دو ہفتوں کے دوران مختلف اضلاع میں آتشزدگی کے 200 سے واقعات میں تقریباً 14 ہزار 430 ایکڑ اراضی پر مشتمل جنگلات اور قریبی علاقوں کو نقصان پہنچا۔

صوبائی محکمہ جنگلات اور ماحولیات کی جانب سے مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق جنگل میں آتشزدگی کے 210 میں سے 55 واقعات مقامی افراد کی وجہ سے پیش آئے، 12 واقعات کا سبب خشک موسم بنا جبکہ آگ لگنے کے 143 واقعات کی وجوہات نامعلوم ہے۔

محکمے کی جانب سے مذکورہ اعداد و شمار 23 مئی سے 9 جون تک روزانہ کی بنیاد پر تشکیل دی گئی رپورٹ سے مرتب کیے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: خیبر پختونخوا: شانگلہ کے جنگلات میں آتشزدگی سے 3 افراد جاں بحق

محکمہ جنگلات و ماحولیات کے ترجمان لطیف الرحمٰن نے ڈان کو بتایا کہ متاثرہ علاقوں میں افواہیں پھیلائی جارہی ہیں کہ جنگلات میں آگ لگنے سے ہونے والے نقصانات کی مد میں معاوضہ دیا جائے گا۔

ڈویژنل فارسٹ کے عملے سے موصول ہونے والی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ افواہیں ہیں کہ حکومت ہریالی کو خاکستر کرنے کی مد میں ایک لاکھ روپے ادا کرے گی۔

انہوں نے زور دیا کہ مذکورہ رپورٹس میں کوئی سچ نہیں ہے، ان افواہوں کے سبب آتشزدگی کے 55 واقعات پیش آئے جو شہریوں کی جانب سے سرزد ہوئے۔

لطیف الرحمٰن کا کہنا تھا کہ محکمے کی جانب سے آگ لگانے کے مقدمات درج کرواتے ہوئے 21 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، یہ افواہیں بے بنیاد ہیں اور حکومت نے جنگلات میں آگ لگنے سے درخت جلنے پر کوئی معاوضہ دینے کا اعلان نہیں کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ محکمہ جنگلات اور ضلعی انتظامیہ آتشزدگی کے 143 واقعات کی وجہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ یہ آگ شہریوں کی جانب سے بھڑکائی گئی یا اس کی وجہ بھی خشک موسم تھا۔

یہ بھی پڑھیں: خیبر پختونخوا: جنگلات میں مختلف مقامات پر آتشزدگی، ریسکیو آپریشن جاری

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زیادہ تر آگ خشک گھاس میں لگی تھی، جس میں 68 فیصد فرقہ ورانہ اور نجی زمینوں میں اور 73 فیصد سے زیادہ متاثرہ علاقے بھی یا تو فرقہ ورانہ یا نجی اراضی تھے۔

رپورٹ کے مطابق بڑھتا ہوا درجہ حرارت، جو کہ موسمیاتی تبدیلی کا ایک اہم اشارہ ہے، زمین سے زیادہ نمی کو بخارات بناتا ہے، مٹی کو خشک کر دیتا ہے اور پودوں کو مزید آتش گیر بنا دیتا ہے۔

اسی دوران موسم سرما کی برف تقریباً ایک ماہ پہلے پگھل رہی ہے، یعنی جنگلات طویل عرصے تک خشک ہو رہے ہیں، خشک سالی اور گرمی گرین ہاؤس گیسوں کے بڑھتے ہوئے اخراج کے ساتھ جاری ہے، محکمہ جنگلات نے آئندہ برسوں میں مزید آتشزدگی کی توقع ظاہر کی ہے۔

بارش کی کمی

رپورٹ میں پاکستان میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ (پی ایم ڈی) کا ڈیٹا بھی شامل کیا گیا ہے، جس میں ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے گزشتہ چند ماہ میں ریکارڈ کم بارشیں ہوئی ہیں۔

مزید پڑھیں: بارشوں میں کمی، ملک کے جنوبی حصے خشک سالی کی لپیٹ میں، پی ایم ڈی

پی ایم ڈی کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں بارشوں کی مقدار خاصی کم رہی، رواں سال مارچ 1961 کے بعد خشک ترین مہینوں میں نویں نمبر پر تھا جب معمول سے 62 فیصد کم بارش ہوئی۔

ملک کے تمام حصوں میں بڑے پیمانے پر بارش میں کمی دیکھی گئی ہے، بلوچستان میں 66 فیصد کم بارش ہوئی، سندھ میں 65 فیصد، پنجاب میں 65 فیصد، خیبر پختونخوا میں 66 فیصد جبکہ آزاد جموں و کشمیر میں بارش میں 48 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔

اپریل 2022 میں قومی سطح پر معمول کے مقابلے بارش میں 74 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی، یہ 1961 کے بعد خشک مہینوں میں دوسرے نمبر پر ہے، اس دوران ملک کے مختلف حصوں میں کم بارشی ریکارڈ کی گئی۔

اس دوران پنجاب میں 89 فیصد، خیبرپختونخوا میں 79 فیصد، بلوچستان میں 78 فیصد، آزاد جموں و کشمیر میں 56 فیصد اور گلگت بلتستان میں 51 فیصد کم بارش ہوئی۔

قومی سطح پر مئی 2022 میں 48.4 فیصد کم بارش ریکارڈ کی گئی، جبکہ اس ماہ میں بلوچستان میں 91 فیصد، سندھ میں 91 فیصد، گلگت بلتستان میں 59 فیصد، پنجاب میں 46 فیصد، آزاد جموں و کشمیر میں 37 فیصد اور خیبرپختونخوا میں 25 فیصد کم بارش ریکارڈ کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: بارشوں کی کمی سے ڈیمز نہ بھرنے کے باعث فصلوں کو خطرات لاحق

رپورٹ میں جنگل کی آگ کی دیگر وجوہات کا بھی ذکر کیا گیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ جنگلات پر انحصار کرنے والی آبادیاں روایتی طور پر مویشیوں کے لیے نرم گھاس حاصل کرنے کے لیے خشک گھاس کو جلا دیتی ہیں، جس کے نتیجے میں بعض اوقات ہواؤں اور شہریوں کے غیر معمولی رویے کی وجہ سے جنگل میں آگ لگ جاتی ہے۔

اسی طرح آبادی میں اضافے کی وجہ سے زرعی اراضی کی مانگ میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور زمین کو صاف کرنے کے لیے آگ لگائی جاتی ہے (اپریل تا جون) پودوں والی زمینوں کو زرعی کھیتوں میں تبدیل کرنے کے لیے گھاس کو جلا دیا جاتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقامی دشمنیوں کی وجہ سے متحارب گروہ ایک دوسرے کی زرعی پیداوار اور درختوں کو جلا دیتے ہیں جس کے نتیجے میں جنگلات میں آگ لگ جاتی ہے جیسا کہ شیرانی اور شانگلہ کے جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات میں ہوا ہوگا۔

بلین ٹری افورسٹیشن پروجیکٹ (بی ٹی ٹی پی) اور اب ’بی ٹی ٹی پی 10‘ کے تحت دیہی علاقوں میں غیر حاضر مالکان کی جائیداد پر بڑے پودے لگائے گئے ہیں، ان زمین کو پہلے دوسرے مالکان اپنے مویشیوں کے لیے چراگاہ کے طور پر استعمال کرتے تھے۔

اس سے مقامی لوگوں کا ذاتی تنازع پیدا ہوگیا ہے جس کا نتیجہ آگ لگنے کے واقعات ہو سکتے ہیں۔

مزید برآں کوئی سائنسی کٹائی نہ ہونے کی وجہ سے، مردہ اور بوسیدہ درخت آگ کے لیے پکے ہوئے مواد کے طور پر کافی مقدار میں پڑے تھے۔

محکمہ جنگلات کے گزشتہ سال خیبر پختونخوا اسمبلی کو فراہم کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 2020 میں 815 ایکڑ پر پھیلے جنگلات آتشزدگی کے مختلف واقعات میں جل گئے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں