وفاقی حکومت نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے سابق چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال پر طیبہ گل کی جانب سے عائد کیے گئے جنسی ہراسانی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے 3 رکنی کمیٹی تشکیل دے دی۔

کابینہ سیکریٹریٹ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ ‘وفاقی حکومت نے پاکستان کمیشنز آف انکوائری ایکٹ 2017 کی شق 3 کے تحت حاصل اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ایک انکوائری کمیشن تشکیل دی گئی ہے’۔

مزید پڑھیں: پی اے سی کی جسٹس جاوید اقبال کو لاپتا افراد کمیشن کی سربراہی سے ہٹانے کی سفارش

نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ ‘طیبہ گل کی جانب سے جسٹس (ر) جاوید اقبال اور دیگر پر جنسی ہراسانی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیشن تشکیل دی گئی ہے’۔

انکوائری کمیشن کی سربراہی قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی چیئرپرسن رابعہ جویری آغا کریں گے اور دیگر دو اراکین میں قومی کمیشن برائے انسانی حقوق سندھ کی رکن انیس ہارون اور قومی کمیشن برائے انسانی حقوق پنجاب کے رکن ندیم اشرف شامل ہوں گے۔

کمیشن کو تحقیقات کے لیے قواعد و ضوابط بھی دیے گئے ہیں، جس کے تحت کمیشن درخواست گزای کی جانب سے جنسی جرائم سمیت ہراسانی، نشانہ بنانا، غصہ، بدتمیزی، بدنظمی اور اختیارات کے غلط استعمال کے عائد الزامات کی انکوائری کرے گا۔

ٹی او آرز میں بتایا گیا ہے کہ کمیشن انصاف کی فراہمی، تحفظ، شفاف ٹرائل کا حق اور شہریوں کے ساتھ مساوات کے حوالے سے کسی قسم کی خلاف ورزی کا تعین کرے گا۔

کمیشن انکوائری کے بعد تعین کرے گا کہ جس کے خلاف درخواست دی گئی ہے وہ تعزیرات پاکستان 1860 ایکٹ میں درج کسی شق کے تحت کسی جرم میں مرتکب تو نہیں ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: طیبہ گل کے الزامات پر عمران خان پارٹی قیادت سے مستعفی ہوکر چینلج کریں، خورشید شاہ

اسی طرح کمیشن خاتون کی جانب سے عائد کیے گئے ان الزامات کی تحقیقات کرے گا کہ انہیں کسی عہدیدار کی جانب سے ویڈیو یا آڈیو فراہم کرنے کے لیے زور دیا گیا ہو اور وہ مذموم مقاصد کے لیے بعد میں نجی ٹی وی چینل سے لیک کروائی گئی ہو۔

نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ ڈسپلن کے حوالے سے کسی قسم کی خلاف ورزی سے متعلق بھی تحقیقات کی جائیں گی۔

کمیشن سرکاری عہدیدار یا کسی اور ذمہ دار کا بھی تعین کرے گا اگر کسی نے جرم کیا ہو۔

ٹی او آرز میں بتایا گیا ہے کہ تحققیات کے نتائج کی بنیاد پر ضروری قانونی کارروائی کے لیے سفارشات بھی مرتب کی جائیں جو کسی ادارے، محکمے یا کسی شخصیت کرے۔

کمیشن کو وہ تمام اختیارات دیے گئے ہیں جو قانون کے مطابق تحقیقات کے لیے متعین ہیں۔

نوٹیفکیشن کے مطابق وفاق اور صوبوں کے تمام انتظامی حکام کمیشن کو اپنی فرائض انجام دینے میں تعاون کریں گے اور کسی قسم کی ہدایات ہوں تو اس پر بھی عمل کیا جائے گا۔

تحقیقاتی کمیشن کا سیکریٹریٹ نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس (این سی ایچ آر) کا اسلام آباد میں واقع ہیڈ آفس ہوگا اور وفاقی وزارت انسانی حقوق سیکریٹریٹ کے لیے تعاون، ضروری فنڈنگ اور کمیشن کو کام کرنے کے لیے درکار سہولیات فراہم کرے گی۔

نوٹیفکیشن میں بتایا گیا ہے کہ کمیشن انکوائری کا آغاز فوری طور پر شروع کرکے حتمی شکل دے گا اور رپورٹ وفاقی حکومت کو پیش کرے گا۔

یاد رہے کہ لاپتا افراد کے حوالے سے انکوائری کمیشن 2011 میں بنایا گیا تھا اور جسٹس (ر) جاوید اقبال کو اس کو سربراہ مقرر کیا گیا تھا بعد ازاں انہیں نیب کا چیئرمین بھی مقرر کردیا گیا تھا تاہم وہ نیب سے الگ ہوگئے ہیں لیکن تاحال لاپتا افراد کمیشن کے سربراہ ہیں۔

مزید پڑھیں: ایچ آر سی پی کا جسٹس (ر) جاوید اقبال کےخلاف الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ

سابق چیئرمین نیب جاوید اقبال اور طیبہ گل کے درمیان تعلقات کے حوالے سے 2019 میں ایک ویڈیو لیک ہوئی تھی اور اس پر شدید تنقید ہوئی تھی۔

جب یہ ویڈیو لیک ہوئی تھی اور اسی دوران طیبہ گل اور ان کے شوہر محمد فاروق نیب میں انکوائریز کا سامنا کر رہے ہیں اور نیب نے لاہور کی احتساب عدالت میں ان کے خلاف ریفرینس بھی دائر کردیا تھا۔

گزشتہ ماہ رپورٹس آئی تھیں کہ طیبہ گل نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین نورعالم خان کو ایک درخواست دی ہے، جس میں انہوں نے جسٹس(ر) جاوید اقبال اور نیب لاہور کے ڈی جی میجر (ر) شہزاد سلیم دیگر عہدیداروں کے خلاف انکوائری کی استدعا کی تھی کہ انہیں کرپشن کے ریفرنس میں ملوث کردیا گیا ہے۔

طیبہ گل نے پی اے سی کے اجلاس میں بتایا تھا کہ جی میں نےسابق چئیرمین کے خلاف درخواست دائر کی تھی، مجھے کوئی کال اپ نوٹس نہیں ملا، میرے خلاف کوئی انکوائری نہیں ہوئی۔

انہوں نے بتایا تھا کہ ان کو نیب لاہور کے عہدیداروں نے گرفتار کیا، گرفتاری سے قبل سابق چئیرمین نیب سے دو روز پہلے فون پر جھڑپ ہوئی تھی، جس پر نور عالم خان نے استفسار کیا کہ آپ کے چئیرمین نیب کے ساتھ تعلقات کیسے بنے اور آپ سے براہ راست رابطے میں کیسے تھے۔

خاتون نے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ میری چئیرمین نیب سے لاپتا افراد کمیشن کے دوران ملاقات ہوئی تھی، جاوید اقبال نے میرے خلاف 2 کروڑ روپے کا ریفرنس بنایا اور انکوائری کے لیے مجھے طلب تک نہیں کیا گیا۔

انہوں نے بتایا تھا کہ سابق چیئرمین نیب نے ہر فورم پر چپ کرایا، میری شنوائی کہیں نہیں ہوئی، میرے خلاف 40 ایف آئی آرز درج کی گئیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں