چھ ماہ کے عرصے میں تقریباً 58 لاکھ مسافروں نے گرین لائن بس سروس استعمال کی

اپ ڈیٹ 24 جولائ 2022
منصوبے کے شروع ہونے والے مہینے میں 50 ہزار افراد روزانہ سفر کرتے تھے— فائل فوٹو: وائٹ اسٹار
منصوبے کے شروع ہونے والے مہینے میں 50 ہزار افراد روزانہ سفر کرتے تھے— فائل فوٹو: وائٹ اسٹار

کئی برسوں سے اچھی ٹرانسپورٹ کے منتظر کراچی کے شہریوں نے گرین لائن بس سروس کے آغاز کے ابتدائی 6 ماہ میں مثبت ردِعمل دیا اور اس کے مقررہ راستوں پر چلنے والی 80 بسوں میں اب تک تقریباً 60 لاکھ شہری سفر کرچکے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عوامی ردعمل سے یہ امید پیدا ہوئی کہ اس طرح کی مزید سہولیات مسافروں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ کر سکتی ہیں اور اس مصیبت زدہ شہر کے شہریوں کی دہائیوں پرانی مصائب کا خاتمہ کر سکتی ہیں۔

بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم کی گرین لائن پہلا پبلک ٹرانسپورٹ آپریشن ہے جسے وفاقی حکومت نے برسوں بعد میٹروپولیٹن شہر میں شروع کیا۔

یہ بھی پڑھیں: گرین لائن اسٹیشنز کے ایسکیلیٹرز اور لفٹ غیر فعال، شہریوں کو مشکلات کا سامنا

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 10 جنوری کو باقاعدہ آغاز سے لے کر 7 جولائی کی شام تک مجموعی طور پر 58 لاکھ 11 ہزار 570 مسافروں نے بغیر کسی تعطل کے گرین لائن پر سفر کیا۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر ماہ اس منصوبے کی 80 بسوں پر اوسطاً 9 لاکھ 68 ہزار 595 افراد کی آمدورفت ہوئی، حکام کا کہنا ہے کہ منصوبے کے شروع ہونے والے مہینے میں 50 ہزار افراد روزانہ سفر کرتے تھے جو بتدریج روزانہ 35 ہزار مسافروں تک پہنچ گئے۔

سندھ انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ کمپنی لمیٹڈ کے جنرل منیجر آپریشنز عبدالعزیز نے کہا کہ اس کے آغاز کے بعد سے سروس بغیر کسی وقفے کے جاری ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ لوگوں کی سہولت میں اضافہ کر رہی ہے۔

مزید پڑھیں: کراچی کی گرین لائن بس منزل نہیں، منزل کی جانب اٹھتا پہلا قدم ہے

انہوں نے سروس میں ٹیکنالوجی کو شامل کرنے کے لیے پائپ لائن میں ایک منصوبے کا بھی حوالہ دیا جس سے مسافروں کو مزید مدد ملے گی، جو جلد ہی ایک ماہ کے اندر دستیاب ہو جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ اس ٹیکنالوجی پر مبنی ویلیو ایڈیشن کے ذریعے مسافروں کے لیے ایک ایپ دستیاب ہوگی تاکہ وہ اپنا کرایہ آن لائن ادا کر سکیں اور کہیں سے بھی اپنے پری پیڈ کارڈز کو ٹاپ اَپ کر سکیں۔

ایسکلیٹرز، لفٹس غیر فعال

وفاقی حکومت کے فنڈ سے بننے والے ان منصوبے کے بارے میں شکایات کے باوجود اسے بنیادی طور پر ضلع وسطی میں لوگوں کے لیے ایک 'رحمت' کے طور پر دیکھا گیا، جن کا ماننا ہے کہ اس اسکیم نے بالآخر نتائج دینا شروع کر دیے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی گرین لائن بس منصوبے کی خصوصیات کیا ہیں؟

بہت سے مسافروں نے شکایت کی ہے کہ گرین لائن اسٹیشنوں پر نصب کئی ایسکلیٹرز اور لفٹیں ناقص ہیں یا مختلف نامعلوم وجوہات کی بنا پر چلائی نہیں جا رہیں۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے ایک مسافر نے کہا کہ جب گرین لائن بس کے اسٹاف سے پوچھا جاتا ہے کہ ایسکلیٹر کیوں بند ہیں تو وہ سادہ سا جواب دے دیتے ہیں کہ وہ خراب ہیں۔

ہر ماہ تقریباً 10 لاکھ مسافر اپنی اپنی منازل کے لیے 15 سے 55 روپے ادا کر رہے ہیں اور 18 میٹر طویل بس میں سواری سے لطف اندوز ہو رہے ہیں جو سرجانی ٹاؤن سے نمائش تک 22 کلومیٹر کے راستے میں 22 اسٹیشنوں سے گزرتی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں