گال میں 246 رنز کی بھاری بھرکم شکست کے ساتھ پاکستان کے ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے فائنل تک پہنچنے کے امکانات تقریباً ختم ہوچکے ہیں۔

پاکستان پہلے ٹیسٹ کے بعد چیمپیئن شپ کے پوائنٹس ٹیبل پر تیسرے نمبر پر تھا، مگر دوسرے ٹیسٹ میں شکست کے بعد اب ایک مرتبہ پھر پانچویں پر چلا گیا ہے، جہاں سے واپس ٹاپ 2 میں آنا اور فائنل تک رسائی کرنا اب دیوانے کا خواب ہے۔

سری لنکا نے آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ سیریز بھی برابر کی تھی، لیکن آسٹریلیا اس چیمپیئن شپ میں اتنا آگے ہے کہ یہ شکست بھی اس کو اعزاز کی دوڑ سے باہر نہیں کر پائی۔ البتہ پاکستان کا معاملہ بالکل مختلف تھا۔ اسے ناصرف سری لنکا کے خلاف بلکہ اپنی آئندہ آنے والی سیریز بھی جیتنی تھیں۔ لیکن بابر الیون اس مشن کے پہلے ہی مرحلے میں ناکام ہوگئی۔

حسن علی سری لنکن باؤلر رمیش مینڈس کی گیند پر بولڈ ہوتے ہوئے— تصویر: اے ایف پی
حسن علی سری لنکن باؤلر رمیش مینڈس کی گیند پر بولڈ ہوتے ہوئے— تصویر: اے ایف پی


گال میں ہوا کیا؟


ٹیسٹ کرکٹ محض اس لیے مختلف نہیں کہ اس میں زیادہ دنوں کا کھیل ہوتا ہے بلکہ اس طرز کی کرکٹ میں جیت کی حکمتِ عملی ہی الگ ہوتی ہے، کھیل کا انداز ہی مختلف ہوتا ہے۔

مثلاً آپ کے لیے ضروری ہے کہ حریف کی تمام وکٹیں حاصل کریں، جب تک ایسا نہیں کرسکتے، جیت کو بھول جائیں۔ اس لیے محض رنز روکنے سے کام نہیں چلتا۔ یہی وجہ ہے کہ جس ٹیم کے پاس حریف کو آل آؤٹ کرنے کی صلاحیت رکھنے والے باؤلرز نہ ہوں، اس کے لیے میچ جیتنا مشکل ہوجاتا ہے۔

پاکستان کے ساتھ دوسرے ٹیسٹ میں بھی کچھ یہی ہوا۔ پہلی اننگ میں 258 رنز پر 5 کھلاڑی آؤٹ کرنے کے بعد ضروری تھا کہ سری لنکا کی باری 300 سے پہلے پہلے لپیٹ دی جائے لیکن باؤلرز نے باقی ماندہ سری لنکن بلے بازوں کو 378 رنز تک پہنچنے دیا۔

دوسری اننگ میں تو حال اور بھی بُرا رہا۔ 117 رنز پر سری لنکا کی 5 وکٹیں لے لیں، لیکن پھر بھی سری لنکا 8 وکٹوں پر 360 رنز بنا گیا اور پاکستان کو ایسا ہدف دیا، جو وہ خوابوں میں بھی حاصل نہیں کرسکتا تھا۔ 508 رنز کا ہدف کبھی تاریخ میں کسی ٹیم نے عبور کیا ہے؟

پھر پاکستان کی بیٹنگ لائن نے بھی دوسرے ٹیسٹ میں بہت مایوس کیا۔ پہلے مقابلے میں تو ایک، 2 بلے بازوں کی ناقابلِ یقین اننگز تھیں جو مقابلہ بچا گئیں لیکن ایسے معجزے بار بار نہیں ہوتے۔ بالآخر باؤلنگ کے بعد پاکستان کی بیٹنگ کمزوری بھی دوسرے ٹیسٹ میں کھل کر سامنے آگئی۔

گزشتہ میچ کے ہیرو عبد اللہ شفیق 2 اننگز میں صرف 16 رنز بناسکے۔ امام الحق، محمد رضوان اور فواد عالم یعنی بابر اعظم کے سوا سبھی ٹاپ آرڈر بیٹسمین ایک بار بھی 50 کا ہندسہ تک پار نہ کر پائے۔ اب اس طرح کیسے مقابلہ جیتا جاسکتا ہے؟

پھر دورۂ سری لنکا میں ہمیشہ اسپن باؤلنگ کا ایک فیصلہ کن کردار ہوتا ہے۔ اس شعبے میں بھی پاکستان نے بہت مایوس کن کارکردگی دکھائی۔ پہلے میچ میں تو 4 فاسٹ باؤلرز کے ساتھ میدان میں اتر گئے۔ وہ تو قسمت اچھی تھی کہ مقابلہ جیت گئے ورنہ کسر کوئی نہ چھوڑی تھی۔

لیکن دوسرے ٹیسٹ سے پہلے شاہین آفریدی زخمی ہوگئے اور یوں پاکستان اپنے مین اسٹرائیک باؤلر سے محروم ہوگیا۔ اس کا ازالہ 3 اسپنرز کھلا کر پورا کرنے کی کوشش کی گئی لیکن یاسر شاہ میں، چند بہت اچھی گیندوں سے ہٹ کر، وہ پرانی کاٹ اور دم خم نظر نہیں آیا۔ وہ یاسر جو تنِ تنہا دنیا کے بڑی بیٹنگ لائن اپس کو تگنی کا ناچ نچا دیتے تھے، سری لنکا کے اسپن ٹریکس پر بھی کچھ خاص نہ کر پائے۔ پھر نعمان علی اور محمد نواز بھی بجھے بجھے دکھائی دیے اور بالآخر نتیجہ وہ نکلا جو نہیں نکلنا چاہیے تھا۔

بابر اعظم بولڈ ہونے کے بعد اسٹمپس کو دیکھتے ہوئے— تصویر: اے ایف پی
بابر اعظم بولڈ ہونے کے بعد اسٹمپس کو دیکھتے ہوئے— تصویر: اے ایف پی


اب ٹیسٹ چیمپیئن شپ میں کیا ہوگا؟


اس 'گال کہانی' کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کے ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے فائنل تک پہنچنے کے امکانات تقریباً ختم ہوچکے ہیں۔ اس لیے کیونکہ اب مارچ 2023ء سے پہلے اس کی محض 2 سیریز باقی ہیں، وہ بھی انگلینڈ اور نیوزی لینڈ جیسی ٹیموں کے خلاف۔ اگر پاکستان فائنل کی دوڑ میں برقرار رہنا چاہتا ہے تو اسے انگلینڈ کے خلاف تینوں اور نیوزی لینڈ کے خلاف دونوں ٹیسٹ میچ جیتنے ہوں گے۔ اس صورت میں پوائنٹس ٹیبل پر پاکستان کی جیت کا تناسب 69.05 فیصد ہوجائے گا۔ لیکن ایک بھی شکست کھائی تو یہ تناسب 61.9 فیصد پر پڑا ہوگا، یا 2 ٹیسٹ میچ بھی ڈرا کھیل لیے تو فائنل کی کوئی گارنٹی نہیں ہوگی۔ پھر تمام تر انحصار دوسری ٹیموں کے مقابلوں پر ہوگا۔

انگلینڈ کرکٹ ٹیم ستمبر میں پاکستان کے دورے پر آئے گی جس میں 3 ٹیسٹ میچ کھیلے جائیں گے جبکہ نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم دسمبر اور جنوری میں پاکستان کے خلاف 2 ٹیسٹ میچ کھیلے گی۔ یہ دونوں پاکستان کی ہوم سیریز ہوں گی اس لیے ایڈوانٹیج تو پاکستان کو حاصل ہوگا۔ لیکن آخری ہوم سیریز کا نتیجہ یاد ہے؟ جی ہاں! پاکستان آسٹریلیا کے خلاف تاریخی ٹیسٹ سیریز ہار گیا تھا۔

پھر ٹیسٹ چیمپیئن شپ فائنل تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان انگلینڈ اور نیوزی لینڈ دونوں کو کلین سوئپ کرے۔ مسلسل 2 سیریز میں حریف کو کلین سوئپ؟ ایسا آخری بار کب ہوا تھا؟ یہ تو ہمیں بھی یاد نہیں۔

انگلش کرکٹ ٹیم ستمبر میں پاکستان کے دورے پر آئے گی— تصویر: اے ایف پی
انگلش کرکٹ ٹیم ستمبر میں پاکستان کے دورے پر آئے گی— تصویر: اے ایف پی


سری لنکا کے امکانات


دوسری جانب سری لنکا نے آسٹریلیا اور پھر پاکستان، دونوں کے خلاف ناقابلِ یقین انداز میں سیریز برابر کی ہیں۔ ان کامیابیوں کی بدولت سری لنکا ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے پوائنٹس ٹیبل پر ایک بار پھر تیسرے نمبر پر آگیا ہے۔ لیکن اس کی جیت کا تناسب 53.33 فیصد ہے جو ٹاپ 2 میں آنے کے لیے کافی نہیں۔

پھر یہ بھی کہ سری لنکا اپنی تقریباً ساری کرکٹ کھیل چکا ہے۔ اب مارچ 2023ء تک اس کی صرف ایک ٹیسٹ سیریز باقی ہے، جو اس نے نیوزی لینڈ کے دورے پر 2 ٹیسٹ میچوں کی صورت میں کھیلنی ہے۔ اگر وہاں سری لنکا دونوں میچ جیتتا ہے تو ٹیبل پر اس کی جیت کا تناسب 61.1 فیصد ہوجائے گا۔ یہ اسے فائنل تک پہنچا پائے گا یا نہیں؟ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ البتہ امکان کم لگتا ہے۔

سری لنکا کے فائنل تک پہنچنے کے امکانات کم ہی ہیں— تصویر: اے ایف پی
سری لنکا کے فائنل تک پہنچنے کے امکانات کم ہی ہیں— تصویر: اے ایف پی


سب سے آگے کون؟


ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن کے پوائنٹس ٹیبل پر اس وقت جنوبی افریقہ کا راج ہے۔ وہ 71.43 فیصد کے جیت کے تناسب کے ساتھ آسٹریلیا سے بھی آگے ہے۔ وہی آسٹریلیا، جس کا اس نے سامنا بھی کرنا ہے۔ جی ہاں! جنوبی افریقہ کے اگلے امتحانات بھی بڑے مشکل ہیں، 3 ٹیسٹ میچ انگلینڈ میں اور 3 آسٹریلیا میں۔ اگر جنوبی افریقہ کو اپنی فتوحات کا تناسب 60 فیصد سے زیادہ رکھنا ہے تو اسے کم از کم ویسٹ انڈیز کے خلاف ہوم سیریز تو ضرور جیتنی ہوگی۔ ہاں! اگر آسٹریلیا یا انگلینڈ میں سے کسی ایک ٹیم کو ‏2-1 سے بھی ہرا دیا تو ویسٹ انڈیز کے خلاف ‏2-0 کی کامیابی انہیں باآسانی فائنل تک پہنچا سکتی ہے۔ یعنی امکانات خوب روشن ہیں۔

دوسرے نمبر پر آسٹریلیا ہے اور اس کے تو مزے ہیں۔ پوائنٹس ٹیبل پر 70 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے اور اب بھی اس کے 9 ٹیسٹ میچ باقی ہیں۔ ان میں سے بھی 5 ہوم گراؤنڈ پر کھیلے جائیں گے۔

آسٹریلیا کو ایک چیلنج ضرور درپیش ہے، اور وہ یہ کہ اسے بھارت کا دورہ کرنا ہے۔ لیکن ایڈوانٹیج دیکھیں: اگر آسٹریلیا اپنے پانچوں ہوم ٹیسٹ میچ جیت جائے، تو بھارت کے ہاتھوں کلین سوئپ بھی اسے 63.16 فیصد سے نیچے نہیں لاسکتا۔ یعنی فائنل کھیلنے کا امکان تب بھی زندہ رہے گا۔ آسٹریلیا کی جے ہو بھئی!

ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن کے پوائنٹس ٹیبل پر اس وقت جنوبی افریقہ کا راج ہے— تصویر: اے ایف پی
ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن کے پوائنٹس ٹیبل پر اس وقت جنوبی افریقہ کا راج ہے— تصویر: اے ایف پی


پاک-بھارت فائنل کا امکان


بھارت اِس وقت ٹیبل پر چوتھے نمبر پر ہے۔ اس کے 6 ٹیسٹ میچ بھی باقی ہیں، جن میں کامیابی کے ذریعے وہ مزید آگے جاسکتا ہے۔ یہ سیریز ہیں بنگلہ دیش اور آسٹریلیا کے خلاف۔ ان کے خلاف تمام ٹیسٹ میچ جیت کر وہ 68.06 فیصد تک پہنچ سکتا ہے یعنی آسٹریلیا سے بھی آگے نکل جائے گا۔

تو کیا پاکستان اور بھارت ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کا فائنل کھیل سکتے ہیں؟ بالکل! پاکستان کو اپنے باقی ماندہ تمام میچ جیتنے ہوں گے اور بھارت کو بھی ایسا ہی کرنا ہوگا، تبھی لارڈز میں 'اصلی تے وڈا' مقابلہ دیکھنے کو ملے گا۔ ہے تو دیوانے کا خواب، لیکن ایسے خواب کبھی کبھی سچ بھی ہوجاتے ہیں۔ ہے نا؟

تبصرے (1) بند ہیں

عمران Aug 01, 2022 10:19am
دوسری ٹیموں کے امکانات کا جائزہ لینے کی بجائے اگر صرف اپنی ٹیم کی کارکردگی اور امکانات تک بحث کو محدود رکھیں تو بہتر ہو۔ ورلڈ ٹیسٹ چیئمین شب کا فائنل بھی کھیلنا چاہتے ہیں اور وہ بھی صرف انڈیا سے۔ اسکو کہتے ہیں انوکھا لاڈلا کھلن کو مانگے چاند۔ اپنی ٹیم کے سلیکشن مسائل اور ناقص فیلڈنگ کے ساتھ کیا ہمیں فائنل کھیلنے کے خواب دیکھنا زیب دیتا ہے۔