چیف جسٹس نے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں فیصلے ڈکٹیٹ نہیں کرائے، جسٹس فائز عیسیٰ کا خط

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خط میں کہا گیا ہے کہ امید کی جاتی ہے کہ منٹس ان تمام واقعات کی درست عکاسی کریں گے — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خط میں کہا گیا ہے کہ امید کی جاتی ہے کہ منٹس ان تمام واقعات کی درست عکاسی کریں گے — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس پاکستان اور جوڈیشل کمیشن کے دیگر اراکین کو خط لکھ کر یاد دلایا ہے کہ کس طرح انہوں نے اور دیگر 4 اراکین نے سندھ ہائیکورٹ کے 3 اور لاہور ہائیکورٹ کے ایک جونیئر جج کے نام سپریم کورٹ میں تعیناتی کے لیے رد کیے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خط میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال اچانک اجلاس چھوڑ کر چلے گئے، جس کے بعد جسٹس اعجازالاحسن بھی چلے گئے۔

خط میں لکھا گیا ہے کہ آئین متوقع تقرریوں کی اجازت نہیں دیتا، چیئرمین جوڈیشل کمیشن نے اجلاس میں لیے گئے فیصلے ڈکٹیٹ نہیں کرائے، لہذا اب یہ قائم مقام سیکریٹری کی ذمہ داری تھی کہ وہ جوڈیشل کمیشن پاکستان کے اجلاس میں کیے گئے فیصلوں کے منٹس تیار کریں۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ میں 5 ججوں کی تعیناتی چیف جسٹس کی حمایت کے باوجود کثرت رائے سے مسترد

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خط میں کہا گیا ہے کہ امید کی جاتی ہے کہ منٹس ان تمام واقعات کی درست عکاسی کریں گے۔

انہوں نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ تفصیلی بحث کے بعد جسٹس طارق مسعود، وزیر قانون، اٹارنی جنرل، نمائندہ بار اور میں نے 4 ججز کی تعیناتی کو مسترد کیا جبکہ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے تقرر پر غور کرنے پر بات کی گئی۔

عدالت عظمیٰ کے سینئر جج نے خط میں لکھا ہے کہ قوم کی نظریں جوڈیشل کمیشن پر لگی ہوئی ہیں اور یہ جاننا قوم کا آئینی حق ہے کہ اجلاس میں کیا فیصلے کیے گئے۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز جوڈیشل کونسل نے سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے نامزد 5 ججوں کی تعیناتی کثرت رائے سے مسترد کردی تھی۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ہوا جہاں چیف جسٹس کے نامزد کسی بھی جج کو سپریم کورٹ لانے کی منظوری نہ ہو سکی۔

جوڈیشل کمیشن نے زیر غور تمام ناموں کو 4 کے مقابلے میں 5 کی کثرت رائے سے مسترد کردیا۔

اجلاس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود، اٹارنی جنرل پاکستان اشتر اوصاف، وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور نمائندہ بار اختر حسین نے مخالفت میں ووٹ دیا۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس ریٹائرڈ سرمد جلال عثمانی نے حق میں ووٹ دیا۔

جوڈیشل کمیشن کے رکن جسٹس ریٹائرڈ سرمد جلال عثمانی نے سندھ کے دو ججوں سے متعلق مخالفت میں ووٹ دیا۔

اجلاس میں پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قیصر رشید، لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد وحید، سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس اظہر رضوی، جسٹس شفیع صدیق اور جسٹس نعمت کے ناموں پر غور کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: اعلیٰ عدلیہ میں سینیارٹی کے خلاف تقرریاں نہ ماننے کا فیصلہ کیا ہے، صدر سپریم کورٹ بار

چیف جسٹس کے نامزد ججوں کے خلاف 5 ووٹ آنے پر اجلاس کچھ کہے بغیر ختم کردیا گیا تھا۔

دو روز قبل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس کے نام خط میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا اجلاس مؤخر کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ججوں کی تعیناتی پر چیف جسٹس کی جلد بازی سوالیہ نشان ہے۔

جوڈیشل کمیشن کے رکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ ’مجھے اپنی سالانہ چھٹیوں کے دوران سپریم کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار کی جانب سے واٹس ایپ میسج موصول ہوا جس میں بتایا گیا کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے 28 جولائی 2022 کو جوڈیشل کمیشن کا اجلاس بلایا ہے‘۔

انہوں نے کہا تھا کہ یہ حیران کن ہے کہ جوڈیشل کمیشن کا اجلاس گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران سپریم کورٹ کے 5 ججوں کی تعیناتی پر غور کرنے کے لیے بلایا گیا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا تھا کہ جب میں نے سالانہ چھٹی لی اس وقت جوڈیشل کمیشن کا کوئی اجلاس طے نہیں تھا لیکن جیسے ہی میں پاکستان سے روانہ ہوا تو چیف جسٹس نے فیصلہ کیا کہ جوڈیشل کمیشن کے 2 اجلاس ہوں گے تاکہ سندھ اور لاہور ہائی کورٹس میں تعیناتیوں پر غور کیا جاسکے اور اب جوڈیشل کمیشن کا تیسرا غیر اعلانیہ اجلاس سپریم کورٹ کی گرمیوں کی تعطیلات کے دوران منعقد ہونے والا ہے۔

چیف جسٹس کے نام خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نشاندہی کی تھی کہ 28 جون کو ہونے والے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں چیف جسٹس اور جسٹس اعجاز الاحسن کے سوا ہر کسی نے اجلاس ملتوی کرنے کے حق میں ووٹ دیا تھا کیونکہ موسم گرما کی تعطیلات کے دوران اجلاس بلانے کا کوئی جواز نہیں اور سب سے سینئر جج منظور شدہ سالانہ چھٹیوں پر ہیں۔

مزید پڑھیں: سیاسی جماعتوں میں تصادم کا خطرہ، سپریم کورٹ بار کا عدالت سے رجوع

انہوں نے لکھا تھا کہ ‘میں انتہائی احترام کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ چیف جسٹس جوڈیشل کمیشن کے فیصلوں کو مسترد نہیں کر سکتے، منظور شدہ تعطیلات کے دوران ایسے وقت میں ایک اور اجلاس بلانا بلاجواز ہے جب چند اراکین سالانہ چھٹی پر ہوں اور اٹارنی جنرل حال ہی میں کرائی گئی دوسری سرجری سے صحت یاب ہو رہے ہیں'۔

خط میں جسٹس فائز عیسیٰ نے اجلاس 13 اگست تک ملتوی کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا تھا کہ جوڈیشل کمیشن نے مہینوں تک اپنا اجلاس نہیں بلایا جب وہ پاکستان میں موجود تھے اور پھر اس طرح کے 3 اجلاس اس وقت طلب کیے جب میں منظور شدہ سالانہ چھٹیوں پر ہوں، یہ ظاہر کرتا ہے کہ چیف جسٹس نہیں چاہتے کہ میں اجلاس میں شریک ہوں جو کہ غیر قانونی اور غیر آئینی ہے‘۔

خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی سے قبل مل بیٹھ کر طے کرنا ہوگا کہ اس معاملے پر آگے کیسے بڑھنا ہے۔ خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے ججوں کی مجموعی تعداد 17 ہے اور اس وقت چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور ایک خاتون جج سمیت کل 13جج موجود ہیں جبکہ جسٹس سجاد علی شاہ بھی 13اگست کو ریٹائر ہوجائیں گے اور اس کے بعد مجموعی طور پر 5 ججوں کی نشستیں خالی ہو جائیں گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں