سی اے اے کے ساتھ تنازع، پی ایس او کا تمام ہوائی اڈوں پر ایندھن کی سہولت روکنے کا امکان

اپ ڈیٹ 08 اگست 2022
پی ایس او حکام نے سول ایوی ایشن اتھارٹی کو ملک بھر کے تمام ہوائی اڈوں کے لیے یکساں پالیسی اپنانے کا کہا ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
پی ایس او حکام نے سول ایوی ایشن اتھارٹی کو ملک بھر کے تمام ہوائی اڈوں کے لیے یکساں پالیسی اپنانے کا کہا ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

موجودہ مالیاتی چیلنجز کے درمیان اگر کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ایندھن کی منافع بخش سہولت نجی سپلائر کو نیلام کردی جائے گی تو سرکاری کمپنی پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) نے اس صورت میں صرف خسارے میں چلنے والے ہوائی اڈوں کی خدمت کرنے سے معذوری کا اظہار کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی ایس او حکام نے سول ایوی ایشن اتھارٹی کو ملک بھر کے تمام ہوائی اڈوں کے لیے یکساں پالیسی اپنانے کا کہا ہے۔

پی ایس او پہلے ہی مسابقتی کمیشن آف پاکستان (سی سی پی) کی جانب سے کراچی ایئرپورٹ پر موجودہ فیول فارم، ایسٹرن جوائنٹ ہائیڈرینٹ ڈپو کو ٹینڈر کرنے کی ہدایت کے خلاف مسابقتی اپیلٹ ٹربیونل میں جاچکا ہے اور اس معاملے پر سی اے اے اور دیگر جواب دہندگان کو نوٹس بھی جاری کیے گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: پی ایس او کو ایندھن کی فراہمی میں مشکلات کا سامنا

پی ایس او کے منیجنگ ڈائریکٹر اور چیف ایگزیکٹو افسر سید محمد طحہٰ نے سیکریٹری پیٹرولیم کو بھیجے گئے ایک پیغام میں کہا کہ کمپنی نے پاکستان بھر کے 10 ہوائی اڈوں پر جیٹ فیول ایندھن بھرنے کی سہولیات کو بین الاقوامی معیار کے مطابق جاری رکھا ہے اور پیداواری صلاحیت اور کارکردگی کو بڑھانے کے لیے ان سہولیات کو اپ گریڈ کرنے اور برقرار رکھنے کے لیے ہر سال لاکھوں روپے کی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔

سرکاری سپلائر نے متنبہ کیا کہ پی ایس او ایک پبلک سیکٹر کا ادارہ ہونے کی حیثیت سے صرف خسارے میں چلنے والے ہوائی اڈوں پر کام کرنے پر راضی نہیں ہوسکتا جبکہ ہمیں مقابلے کو فروغ دینے کے بہانے ایک بڑے ہوائی اڈے سے ہٹایا جارہا ہے۔

انہوں نے یاد دلایا کہ جب سی اے اے نے اسکردو ایئرپورٹ پر جیٹ فیول ایندھن بھرنے کی سہولت کے قیام کے لیے ٹینڈر جاری کیا تھا تو پی ایس او نے وضاحت کی تھی کہ اسکردو کے لیے پروازوں کو اسلام آباد ایئرپورٹ سے دوطرفہ ایندھن ملتا ہے اور سڑک کی نقل و حمل کی لاگت زیادہ ہونے کی وجہ سے اسکردو ایئرپورٹ پر ایندھن کی بہت زیادہ قیمت ہوگی جس سے ایئرلائنز کی اسکردو میں ایندھن بھروانے کے لیے حوصلہ شکنی ہوگی۔

مزید پڑھیں: پی ایس او کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے مزید 30 ارب روپے کے ٹیکس لگانے کا فیصلہ

مراسلے میں کہا گیا کہ اس کے باوجود قومی مفاد میں پی ایس او نے ٹینڈر میں حصہ لیا اور سیاحت کو فروغ دینے کے حکومتی وژن کی حمایت کے لیے ایک عارضی مدت کے لیے ایک موبائل سہولت قائم کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔

سی ای او نے وفاقی حکومت کو یہ بھی یاد دلایا کہ چند سال قبل مشکلات کے شکار ایک نجی ادارے ہیسکول پیٹرولیم نے مسابقتی کمیشن سے شکایت کی تھی کہ سی اے اے انہیں جیٹ فیول کے کاروبار کے لیے کراچی ایئرپورٹ پر فیول فارم قائم کرنے کی اجازت نہیں دے رہا۔

اس کے بعد سی سی پی نے سول ایوی ایشن کو موجودہ فیول فارم یعنی ایسٹرن جوائنٹ ہائیڈرینٹ ڈپو (ای جے ایچ ڈی) کو ٹینڈر کرنے کی ہدایت کی، جو گزشتہ 6 دہائیوں سے پی ایس او، شیل پاکستان اور ٹوٹل پاکستان کا مشترکہ منصوبہ ہے۔

بعد ازاں پی ایس او نے سی سی پی کی ہدایت کو اپیلٹ ٹریبونل کے سامنے چیلنج کردیا تھا جس کا فیصلہ زیر التوا ہے۔

دیگر 3 ایئرپورٹس

پی ایس او کے سربراہ نے نشاندہی کی کہ سی اے اے خسارے میں چلنے والے سکھر، نوابشاہ اور پرانے گوادر کے ہوائی اڈوں کو ٹینڈر کے آپشن پر غور کیے بغیر 'براہ راست ٹھیکے' کے تحت جیٹ فیول کی سہولیات کے قیام کا منصوبہ بنا رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پی ایس او نے حصص پر منافع دینے کا اعلان کردیا

انہوں نے شکایت کی کہ سول ایوی ایشن کا موجودہ نقطہ نظر پبلک سیکٹر کے لیے دوستانہ نہیں ہے، کیونکہ یہ ایک جانب پی ایس او کو تمام خسارے میں چلنے والے ہوائی اڈوں پر کام کرنے کے لیے کہہ رہی ہے تو دوسری جانب کراچی کے ہوائی اڈے سے بے دخل کرنا چاہتی ہے جو کسی حد تک ایک قابل عمل کاروباری آپشن ہے۔

پی ایس او حکام نے کہا کہ حکومت سے نہ صرف اس معاملے کو دیکھنے کے لیے رابطہ کیا گیا ہے بلکہ سی اے اے سے تمام ہوائی اڈوں کے لیے یکساں پالیسی اپنانے کے لیے کہا گیا ہے چاہے وہ تمام ہوائی اڈوں پر جیٹ فیول ری فیولنگ کی سہولیات کو ٹینڈر کے ذریعے یا پی ایس او کو براہ راست الاٹمنٹ کے ذریعے لیز پر دینے کی کوشش کرے۔

امدادی اپیل

خیال رہے کہ پی ایس او بین الاقوامی ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے امدادی اپیلیں بڑھا رہا ہے کیونکہ مختلف اداروں کی جانب سے ادائیگیوں میں تاخیر نے اس کی لیکویڈیٹی ختم کردی ہے۔

نتیجتاً کمپنی معاہدے کی ذمہ داری کے تحت کویت پیٹرولیم کو آپریشن کو آگے کی ترسیل کے لیے وفاقی حکومت کے مقامی کرنسی اکاؤنٹ میں 81 ارب روپے جمع نہیں کروا سکی۔

چنانچہ حکومت کو ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے 32 ارب روپے کی ادائیگی کے لیے خصوصی انتظامات کا حکم دینا پڑا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں