سوات میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کے خلاف احتجاجی مظاہرے

اپ ڈیٹ 12 اگست 2022
مظاہرین کا کہنا تھا کہ سوات میں امن یقینی بنانا سیکیورٹی اداروں کی ذمہ داری ہے— فوٹو: فضل خالق
مظاہرین کا کہنا تھا کہ سوات میں امن یقینی بنانا سیکیورٹی اداروں کی ذمہ داری ہے— فوٹو: فضل خالق

خیبرپختونخوا کے علاقے سوات کے ملحقہ پہاڑوں پر عسکریت پسندوں کی مبینہ موجودگی کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے پورے سوات میں بڑی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے زور دیا کہ وہ کسی بھی عناصر کو علاقے میں محنت سے حاصل کیا گیا امن سبوتاژ نہیں کرنے دیں گے۔

شہریوں کی جانب سے 'ہم سوات میں امن چاہتے ہیں' اور دہشتگردی سے انکار' کے عنوان سے مظاہرے تحصیل خوازہ خیلہ میں مٹہ چوک اور تحصیل کبل کے کبل چوک کے نزدیک کیے گئے۔

مظاہرین سفید اور کالے جھنڈے تھامے ہوئے تھے، انہوں نے نعرے بھی لگائے کہ 'ہم سوات اور خیبرپختونخوا میں امن چاہتے ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: سوات: پولیس پارٹی پر فائرنگ کرنے والے عسکریت پسندوں کی تلاش جاری

احتجاج سول سوسائٹی کے ارکان ڈاکٹر امجد علی، ایڈووکیٹ علی نامدار، غیرت یوسفزئی، ابنِ امین یوسفزئی، رحمت علی، فواد خان، احتشام الحق، مہتاب خان، انور علی اور آفتاب خان کی قیادت میں کیا گیا، ان کا کہنا تھا کہ سوات کے عوام کسی بھی عناصر سے دوبارہ بیوقوف نہیں بنیں گے۔

— فوٹو: فضل خالق
— فوٹو: فضل خالق

ڈاکٹر امجد علی نے ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم پرامن لوگ ہیں اور ہر قیمت پر پائیدار امن چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان عناصر کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم نے لاتعداد قربانیاں دے کر امن حاصل کیا ہے، ہم کسی کو بھی قربانیوں کے نتیجے میں حاصل کیا گیا امن سبوتاژ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سوات کے لوگوں نے کئی برسوں کی محنت سے امن حاصل کیا ہے، اور اب وہ 'بے عزت، بے گھر یا قتل ہونے' کے لیے تیار نہیں ہیں۔

ریلی کے شرکا نے حال ہی میں عسکریت پسندوں کی جانب سے جاری ویڈیوز پر غصے اور دکھ کا اظہار کیا، گزشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر ویڈیو میں موجود ایک شخص کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا رکن ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے اور مبینہ فوجی میجر سے تفتیش کر رہا ہے، جن کے ہاتھ پچھے بندھے ہوئے ہیں۔

مزید پڑھیں: لوئردیر: پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی پر حملے کے الزام میں ایک مشتبہ شخص گرفتار

ویڈیو میں یہ دعوی بھی کیا جا رہا ہے کہ عسکریت پسندوں نے مبینہ فوجی میجر اور دیگر 2 افراد ایک ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ڈی ایس پی) اور ایک سپاہی کو یرغمال بنا لیا تھا، بعد ازاں ایک جرگے نے کامیاب مذاکرات سے مغویوں کو بازیاب کروایا۔

8 اگست کو رپورٹ کیا گیا تھا کہ 4 پولیس اہلکار بشمول ڈی ایس پی عسکریت پسندوں اور پولیس کے درمیان جھڑپ کے نتیجے میں سوات اور دیر کے اضلاع میں پہاڑ کے قریب زخمی ہو گئے تھے، دوسری جانب سوات کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر نے کہا تھا کہ صرف ایک پولیس اہلکار زخمی جبکہ عسکریت پسندوں کا بھاری جانی نقصان ہوا ہے، غیرسرکاری ذرائع کے مطابق 4 پولیس اہلکار زخمی ہوئے تھے۔

گزشتہ ہفتے لوئر دیر میں تحریک انصاف کے رکن صوبائی اسمبلی لیاقت علی خان عسکریت پسندوں کے حملے میں شدید زخمی اور 4 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔

آج مظاہرے میں ایڈووکیٹ علی نامدار کا کہنا تھا کہ علاقہ مکین چاہتے ہیں کہ ضلعی انتظامیہ اور صوبائی حکومت جوڈیشل کمیشن کے ذریعے واقعے کی فوری تحقیقات کرے اور اس کے نتائج سے پوری قوم کو آگاہ کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ سوات میں امن یقینی بنانا سیکیورٹی اداروں کی ذمہ داری ہے، اور اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے تو یہ آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔

مظاہرین نے سوات کے پہاڑوں میں عسکریت پسندوں کے دوبارہ آنے پر سیکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کردار پر بھی سوال اٹھایا۔

مظاہرے میں شامل ایک اور شہری یوسفزئی نے کہا کہ انہیں طالبان کی ویڈیوز دیکھ کر حیرت ہوئی، انہوں نے مطالبہ کیا کہ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ بڑی تعداد میں سیکیورٹی ایجنسز کی موجودگی کے باوجود کس طرح عسکریت پسند سوات میں داخل ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: کالعدم ٹی ٹی پی نے پی ٹی آئی رکن اسمبلی پر حملے میں ملوث ہونے کی تردید کردی

انہوں نے مطالبہ کیا کہ اگر ایسے عناصر حقیقی معنوں میں موجود ہیں تو حکومت فوری طور پر سوات سے ان عسکریت پسندوں کا خاتمہ کرے۔

خیال رہے کہ شمالی وزیرستان کے اطراف میں 25 دنوں سے زائد عرصے سے احتجاج اور مظاہرے جاری ہیں، جو لاقانونیت اور مختلف علاقوں میں ٹارگٹ کلنگ کے خلاف کیے جارہے ہیں۔

ان مظاہروں کے پیش نظر وفاقی حکومت نے امن و امان کی خراب صورت حال پر قابو پانے کے لیے متعلقہ اسٹیک ہولڈرز سے بات چیت کے لیے جمعرات کو 16 رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں