کراچی: نوعمر لڑکی کے اغوا کیس میں ریپ کی دفعات شامل

اپ ڈیٹ 17 اگست 2022
تفتیشی افسر نے کہا کہ ملزمان میں سے ایک نے واقعے کے روز شہر میں اپنی موجودگی کا انکشاف کیا — فائل فوٹو/ اے پی
تفتیشی افسر نے کہا کہ ملزمان میں سے ایک نے واقعے کے روز شہر میں اپنی موجودگی کا انکشاف کیا — فائل فوٹو/ اے پی

کراچی سے نوعمر لڑکی کے مبینہ اغوا اور پنجاب میں اس کی کم عمری میں شادی سے متعلق مقدمے میں پولیس نے ریپ کی دفعات شامل کردیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق لگ بھگ 10 مشتبہ افراد پر 15 سالہ لڑکی کو اغوا کرنے اور اسے پنجاب منتقل کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے جہاں اپریل میں اس کی کم عمری میں غیر قانونی شادی کی گئی تھی۔

تفتیشی افسر (آئی او) نے جوڈیشل مجسٹریٹ (شرقی) آفتاب احمد بگھیو کے سامنے ضمنی چارج شیٹ دائر کی۔

تفتیشی افسر نے بتایا کہ ملزمان نے 16 اپریل کو شاہ فیصل کالونی میں کم عمر لڑکی کو اس کے گھر سے اغوا کیا اور لاہور لے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: دعا زہرہ کا رشتے لینے کراچی گئے تھے، ظہیر احمد کی والدہ کا دعویٰ

انہوں نے مزید کہا کہ ملزمان میں سے ایک نے واقعے کے روز شہر میں اپنی موجودگی کا انکشاف کیا جبکہ کال ڈیٹا ریکارڈ (سی ڈی آر) کی مدد سے شہر میں نوعمر لڑکی کے مبینہ شوہر کی موجودگی کی بھی تصدیق ہوئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ تفتیش کے دوران حراست میں لیے گئے اور مفرور ملزمان سیکشن اے-364 (14 سال سے کم عمر کے کسی فرد کے اغوا)، 363 (اغوا)، 368 (اغوا شدہ شخص کو غلط طریقے سے چھپانا یا قید میں رکھنا) اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 34 (مشترکہ ارادہ) اور انسداد انسانی اسمگلنگ ایکٹ 2018 کی دفعہ 3 (2) کے تحت قابل سزا جرائم میں ملوث پائے گئے۔

چارج شیٹ میں مزید کہا گیا کہ مبینہ طور پر لڑکی کے نکاح میں سہولت فراہم کرنے والے زیر حراست عالم حافظ غلام علی اور گواہ علی اصغر 'سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 2013' کے سیکشن 3 اور 4 کے تحت قابل سزا جرائم میں ملوث ہیں۔

تفتیشی افسر نے لڑکی کے مبینہ شوہر کے خلاف پی پی سی کی دفعہ 375 (5) (16 سال سے کم عمر کے ساتھ رضامندی یا اس کے بغیر ریپ) کا بھی مطالبہ کیا۔

مزید پڑھیں: دعا زہرا کے والد کی تفتیشی افسر تبدیل کرنے کی درخواست مسترد

تفتیشی افسر کا یہ مطالبہ اس امر کے باوجود کیا گیا کہ ان کی جانب سے نوعمر لڑکی کو طبی معائنے کے لیے ہسپتال منتقل کرنے کی اجازت کی درخواست کو جوڈیشل مجسٹریٹ مسترد کر چکے ہیں۔

جوڈیشل مجسٹریٹ نے مشاہدہ کیا تھا کہ اس مرحلے پر طبی معائنے سے متاثرہ لڑکی کے لیے شرمندگی اور اس کے جذبات مجروح ہونے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

تفتیشی افسر نے مجسٹریٹ سے ضمنی چارج شیٹ کو قبول کرنے کی درخواست کی اور ساتھ ہی مفرور ملزمان کی گرفتاری اور اگلی تاریخ کو عدالت میں پیش کرنے کے لیے وقت بھی مانگا۔

درخواست کو منظور کرتے ہوئے مجسٹریٹ نے ضمنی چارج شیٹ کی منظوری یا مسترد کرنے کا معاملہ 20 اگست کو سماعت کے لیے مقرر کردیا۔

واضح رہے کہ اغوا کا یہ مقدمہ ابتدائی طور پر متاثرہ لڑکی کے والد سید مہدی علی کاظمی کی شکایت پر الفلاح تھانے میں درج کیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں