سابق وزیراعظم کے مشیر شہزاد اکبر کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کی منظوری

اپ ڈیٹ 17 اگست 2022
شہزاد اکبر اور ضیا المصطفیٰ نسیم کے نام نیب کی سفارش پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالے گئے— فائل فوٹو: پی آئی ڈی
شہزاد اکبر اور ضیا المصطفیٰ نسیم کے نام نیب کی سفارش پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالے گئے— فائل فوٹو: پی آئی ڈی

وفاقی کابینہ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے 2 قریبی ساتھیوں مرزا شہزاد اکبر اور ضیا المصطفیٰ نسیم کے نام قومی احتساب بیورو (نیب) کی درخواست پر مالیاتی اسکینڈل میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کرنے کی منظوری دے دی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اجلاس کے بعد جاری کردہ اعلامیے میں بتایا گیا کہ کابینہ نے وزارت داخلہ کی تجویز پر 10 افراد کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کرنے، 22 افراد کے نام ای سی ایل سے نکالنے اور 3 افراد کو ایک مرتبہ باہر جانے کی اجازت (او ٹی پی) کی منظوری دی۔

ایک سینئر حکومتی عہدیدار نے بتایا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دور حکومت کے اثاثہ جات ریکوری یونٹ کے قانونی ماہر شہزاد اکبر اور ضیا المصطفیٰ نسیم کے نام نیب کی سفارش پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالے گئے ہیں۔

شہزاد اکبر اور ضیا المصطفیٰ نسیم دونوں اس وقت برطانیہ میں ہیں، قانون کے مطابق اگر کسی شخص کا نام ای سی ایل میں ڈالا گیا ہو اور وہ بیرون ملک موجود ہو تو اسے وطن واپسی پر گرفتار کر کے متعلقہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کے حوالے کردیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز گل، شہزاد اکبر کا نام فوری طور پر ’اسٹاپ لسٹ‘ سے نکالنے کا حکم

برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے مبینہ طور پر بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کے خاندان کے اثاثے 'غیر قانونی' ہونے کی وجہ سے منجمد کر دیے تھے، تاہم دسمبر 2019 میں ان کے ساتھ 19 کروڑ پاؤنڈ مالیت کے تصفیے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

وزیر داخلہ رانا ثنااللہ ماضی میں شہزاد اکبر اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر الزام عائد کر چکے ہیں کہ انہوں نے اپنے دور حکومت میں بحریہ ٹاؤن کو اس کیس میں 'تحفظ فراہم' کرنے کے عوض ملک ریاض سے 5 ارب روپے اور سیکڑوں کنال اراضی حاصل کی۔

رانا ثنااللہ نے کہا تھا کہ ہاؤسنگ سوسائٹی نے برطانیہ میں ایک پاکستانی شہری کو 50 ارب روپے غیر قانونی طور پر منتقل کیے تھے، اس منتقلی کی شناخت برطانیہ کے این سی اے نے کی تھی۔

انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ عمران خان نے شہزاد اکبر کو اس معاملے کو حل کرنے کا کام سونپا تھا جبکہ سپریم کورٹ کے ایک اور کیس میں قومی خزانے کے 50 ارب روپے کو بحریہ ٹاؤن کے 460 ارب روپے کے عوض ایڈجسٹ کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے استعفیٰ دے دیا

وفاقی وزیر نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ بحریہ ٹاؤن نے ایک معاہدہ کیا اور عمران خان اور ان کی اہلیہ کی ملکیت 'القادر ٹرسٹ' کو 53 کروڑ روپے مالیت کی 458 کنال زمین الاٹ کی۔

دوسری جانب شہزاد اکبر نے کہا کہ دسمبر 2019 میں وفاقی کابینہ کی جانب سے منظوری کے بعد پاکستان برطانوی ادارے این سی اے کے ساتھ ڈیٹا کے تحفظ اور دونوں فریقین کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی رازداری کو یقینی بنانے کے لیے قانونی ذمہ داری کا پابند ہے۔

شہزاد اکبر نے 30 جولائی کو کابینہ ڈویژن کے سیکریٹری کو لکھے گئے خط میں بحریہ ٹاؤن کے معاملے میں اثاثے منجمد کرنے کے احکامات اور فنڈز کی پاکستان واپسی پر قائم کی گئی کابینہ کی ذیلی کمیٹی کا حوالہ دیا اور معاہدے کی خلاف ورزی اور اس کے قانونی اثرات کے بارے میں خبردار کیا۔

انہوں نے کمیٹی کو مشورہ دیا کہ وہ پہلے اٹارنی جنرل سے قانونی رائے لیں، انہوں نے برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن سے آن لائن آکر نیب کے سوالات کا جواب دینے کے لیے رضامندی بھی ظاہر کی تھی۔

مزید برآں کابینہ نے وزارت داخلہ کی سفارشات پر دیگر 10 افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کرنے، 22 افراد کا نام نکالنے اور 3 افراد کو ایک بار بیرون ملک سفر کرنے کی اجازت دینے کی بھی منظوری دے دی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں