لاہور کی مقامی عدالت نے 16 اپریل کو وزیراعلیٰ کے انتخاب کے دوران پنجاب اسمبلی میں ہونے والی کشیدگی کے حوالے سے پولیس کی درخواست پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے 12 رہنماؤں کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے۔

پولیس نے کینٹ کچہری لاہور میں صبح درخواست جمع کرائی تھی، جس میں پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں اراکین اسمبلی پر مبینہ حملے کے الزام میں سیاستدانوں کے خلاف کارروائی کی درخواست کی گئی، جس پر جوڈیشل مجسٹریٹ محمد مدثر حیات نے یہ وارنٹ جاری کیے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ق) کے پرویز الہٰی کی جانب سے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے چند ہفتوں بعد یہ پیش رفت سامنے آئی۔

اس واقعے کی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) تھانہ قلعہ گجر میں اسی روز درج کروائی گئی تھی، جس میں دفعہ 324 (اقدام قتل)، دفعہ 353 (سرکاری ملازم فرض کی ادائیگی سے روکنے کے لیے حملہ یا مجرمانہ قوت کا استعمال)، دفعہ 186 (عوامی خدمت میں رکاوٹ) اور دفعہ 427 (نقصان پہنچانا) شامل کی گئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب پولیس کا عطا تارڑ کے گھر چھاپہ، تحقیقات میں تعاون کرنے کیلئے نوٹس لگا دیا

عدالت میں دی جانے والی درخواست میں پولیس کا مؤقف تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کو پکڑنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ دانستہ طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سامنے پیش نہیں ہو رہے۔

پولیس کا کہنا تھا کہ ملزمان کو گرفتار کر کے تفتیش مکمل کرنی ہے۔

لاہور پولیس نے آج رانا مشہود کے گھر پر چھاپہ مارا جبکہ نشریاتی اداروں نے گیٹ کے باہر پولیس اہلکاروں کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی نشر کی۔

رانا مشہود نے جیو نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ پولیس نے آج ان کے گھر چھاپہ مارا، پولیس والے واپس چلے گئے کیونکہ میں گھر میں موجود نہیں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت پنجاب انتقامی ہتھکنڈوں کا سہارا لے رہی ہے، ان کی پارٹی نے مزید چھاپے مارنے کی اطلاع دی ہے لیکن ہم اس طرح کے ہتھکنڈوں کے سامنے نہیں جھکیں گے اور تمام مقدمات کا سامنا کریں گے۔

مزید پڑھیں: پنجاب میں گرفتاریوں کا خوف، مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے اسلام آباد میں پناہ لے لی

پاکستان مسلم لیگ(ن) کے رہنما اور وزیراعظم کے معاون خصوصی عطا اللہ تارڑ نے ٹوئٹ میں کہا کہ وارنٹ گرفتاری میں، مجھ سمیت میرے چھوٹے بھائی بلال تارڑ کا نام شامل کرنا چودھری پرویز الہٰی کی طرف سے ان احسانات کا بدلہ ہے جو ہمارے بزرگوں نے ساری عمر ان پر کیے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سیاسی انتقام کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے، پورے خاندان کا نام بھی ڈال دو، ان شااللہ جھکنے والے نہیں، مقدمہ مضحکہ خیز ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما حمزہ شہباز نے ٹوئٹ میں کہا کہ سینئر رہنماؤں اور اراکین اسمبلی کے وارنٹ گرفتاری اور چھاپے قابل مذمت اور آمرانہ سوچ کے عکاس ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ عمران نیازی کی ایما پر فسطائی حکومت کے اوچھے ہتھکنڈوں سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے حوصلے نہیں ٹوٹیں گے، ایسی انتقامی سوچ ہماری جمہوری روح کا بال تک بیکا نہیں کر سکتی۔

یہ بھی پڑھیں: رانا ثنا اللہ کےخلاف فرد جرم کی کارروائی ایک بار پھر مؤخر

گزشتہ ہفتے پولیس نے اسی کیس میں سابق وزیراعلیٰ حمزہ شہباز کے قریبی ساتھی عطا اللہ تارڑ کے خلاف کارروائی کی تھی۔

پولیس کی ایک ٹیم نے شہر میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دونوں رہنماؤں کے گھروں پر چھاپہ مارا تھا تاہم ملزمان دارالحکومت میں تھے اس لیے وہ خالی ہاتھ واپس چلے گئے تھے۔

ڈان نے ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما گرفتاری سے بچنے کے لیے اسلام آباد کی محفوظ حدود میں پناہ لے لی، جہاں ان کی پارٹی کی حکومت ہے۔

16 اپریل کی ہنگامہ آرائی

پنجاب اسمبلی میں 16 اپریل کو شدید ہنگامہ آرائی کے دوران ووٹنگ کے بعد مسلم لیگ (ن) کے رہنما حمزہ شہباز 197 ووٹ حاصل کرکے پنجاب کے 21ویں وزیراعلیٰ منتخب ہوگئے تھے جبکہ حریف امیدوار پرویز الہٰی کی جماعت مسلم لیگ (ق) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے ووٹنگ کے عمل کا بائیکاٹ کیا تھا۔

مزید پڑھیں: حمزہ شہباز 197 ووٹ حاصل کرکے پنجاب کے وزیراعلیٰ منتخب

ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری نے ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد ایوان سے مخاطب ہوکر کہا تھا کہ آج جمہوریت کی کامیابی ہوئی ہے۔

اجلاس کی صدارت کے لیے دوست محمد مزاری ایوان میں پہنچے تھے تو حکومتی اراکین اسمبلی نے ڈپٹی اسپیکر کی نشست کا گھیراؤ کرلیا، اس دوران ان کی جانب لوٹے بھی اچھالے گئے اور ان کے بال بھی نوچے گئے، جس کے بعد ڈپٹی اسپیکر کو سخت سیکیورٹی میں ایوان سے باہر لے جایا گیا۔

دریں اثنا حکومت اور اپوزیشن اراکین کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہوئی تھی، صورت حال پر قابو پانے کے لیے ایس ایس پی آپریشنز کے ہمراہ پنجاب پولیس کی بھاری نفری پنجاب اسمبلی پہنچی تھی۔

اس دوران اسمبلی کے اندر موجود پرویز الہٰی نے مسلم لیگ (ن) پر پولیس کو ایوان کے اندر لانے کا الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ ’پنجاب کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ پولیس ایوان میں آئی ہے‘۔

مزید پڑھیں: پنجاب اسمبلی میں ہنگامہ آرائی، مقدمے کے اندراج کیلئے پرویزالہٰی کی درخواست

انہوں نے کہا تھا کہ پولیس کون ہوتی ہے جو اسمبلی میں داخل ہو؟

بعد ازاں بلٹ پروف جیکٹس میں ملبوس اینٹی رائٹ فورس کے اہلکار پنجاب اسمبلی کے پرانے گیٹ سے ایوان میں داخل ہوئے تھے۔

پولیس نے ارکان صوبائی اسمبلی کو اسپیکرڈائس سے ہٹایا اور اسپیکر ڈائس کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں