میانمار: آنگ سانگ سوچی فیصلوں کے بعدگھر جاسکتی ہیں، فوجی حکمران

20 اگست 2022
فوجی جنتا کے سربراہ نے کہا کہ فیصلے آنے کے بعد میں اس معاملے پر غور کروں گا —فوٹو: اے ایف پی
فوجی جنتا کے سربراہ نے کہا کہ فیصلے آنے کے بعد میں اس معاملے پر غور کروں گا —فوٹو: اے ایف پی

میانمار کی فوجی حکومت کے سربراہ نے کہا ہے کہ نوبیل انعام یافتہ برطرف رہنما آنگ سان سوچی کے خلاف دائر مقدمات پر فیصلے آنے کے بعد انہیں جیل سے نکال کر گھر میں نظر بند کرنے کے لیے غور کریں گے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق فوجی حکومت کے سربراہ من آنگ ہلینگ کا تحریری بیان سرکاری ٹیلی ویژن پر جاری کیا گیا، جس میں انہوں نے کہا کہ فیصلہ آنے کے بعد میں اس معاملے پر غور کروں گا، ہم نے ان پر سخت الزامات عائد نہیں کیے اور رحم کا مظاہرہ کیا ہے حالانکہ ہم زیادہ کچھ کر سکتے تھے۔

مزید پڑھیں: میانمار: فوج کے خلاف اکسانے کا الزام، آنگ سان سوچی کو 4 سال کی سزا

میانمار کے فوجی حکمران کا یہ بیان اقوام متحدہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار کی درخواست کے جواب میں سامنے آیا، جنہوں نے رواں ہفتے میانمار کا دورہ کیا تھا اور آنگ سان سوچی کو گھر واپس بھیجنے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا تھا۔

آنگ سان سوچی کو گزشتہ سال فوجی بغاوت کے بعد معزول کیا گیا تھا ان کو جون میں دارالحکومت نیپیداو کی ایک جیل میں منتقل کیا گیا تھا جہاں انہیں قید تنہائی میں رکھا گیا ہے۔

خیال رہے کہ 77 سالہ نوبیل انعام یافتہ برطرف آنگ سان سوچی نے گزشتہ تین دہائیوں کا تقریبا نصف دور گھر میں نظربندی میں گزارا ہے۔

بغاوت کے بعد سے نوبل انعام یافتہ رہنما پر بدعنوانی سے لے کر انتخابات میں خلاف ورزیوں تک کے کم از کم 18 الزامات پر فرد جرائم عائدکیا جکا ہے اور وہ پہلے ہی کئی برس قید کی سزا کاٹ چکی ہیں۔

آنگ سان سوچی نے اپنے خلاف لگائے گئے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے یکسر مسترد کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: آئی سی جے میں میانمار کی نمائندگی کیلئے فوج، معزول حکومت میں ٹھن گئی

میانمار کی آزادی کے ہیرو کی بیٹی آنگ سان سوچی کو پہلی بار 1989 میں کئی دہائیوں کی فوجی حکمرانی کے خلاف احتجاج کے بعد گھر میں نظر بند کیا گیا تھا۔

اس کے بعد انہوں نے 1991 میں جمہوریت کے لیے مہم چلائی تھی، جس پر امن کا نوبل انعام سے نوازا گیا تھا لیکن 2010 میں انہیں مکمل طور پر نظر بندی سے آزاد کیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں