لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ و اقوام متحدہ ہیں
لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ و اقوام متحدہ ہیں

آئی ایم ایف کی جانب سے بیل آؤٹ پیکج ملنے کی امید پر مارکیٹ کی صورتحال بہتر تو ہوئی ہے، تاہم ملک میں جاری سیاسی انتشار کی وجہ سے ملک کے سیاسی اور معاشی مستقبل کے حوالے سے کوئی مثبت امید نہیں رکھی جاسکتی۔

اس بات کی تصدیق ہوگئی ہے کہ قرض پروگرام کی منظوری کے لیے آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس آئندہ ماہ ہوگا۔ اس خبر کے نتیجے میں روپیہ مضبوط ہوا اور مارکیٹ کا اعتماد بحال ہوا۔ اس کے علاوہ اسٹاک مارکیٹ میں بھی یہ ہفتہ بہتر رہا۔

وزیرِاعظم شہباز شریف نے غیر ملکی جریدے دی اکانومسٹ میں ایک مضمون لکھا ہے جس میں انہوں نے آئی ایم ایف پروگرام کو ‘محفوظ راستہ’ قرار دیا ہے۔ تاہم سیاسی کشیدگی اس معیشت کو متاثر کررہی ہے جبکہ معیشت کی بحالی اور سیاسی عدم استحکام کے درمیان تعلق کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

وزیرِ خزانہ مفتاح اسمٰعیل کو اپنی جماعت اور اہم اتحادیوں کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا ہے تاہم وہ سخت مگر ضروری فیصلے لے رہے ہیں تاکہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ طے پاجائے اور ملک کے ڈیفالٹ ہونے کا امکان بھی ختم ہوجائے۔

اسٹیٹ بینک کے قائم مقام گورنر مرتضٰی سید نے بھی اس مشکل صورتحال میں بہترین کردار ادا کیا ہے۔ ان کی نگرانی میں مرکزی بینک نے نہ صرف ذمہ دارانہ بیانات جاری کیے بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ شرح مبادلہ مارکیٹ پر منحصر رہے۔ ساتھ ہی اسٹیٹ بینک نے شرح سود کے حوالے سے درست لیکن سیاسی طور پر غیر مقبول فیصلے بھی لیے۔

مزید پڑھیے: ڈیفالٹ ہونے کے بعد کیا ممالک دوبارہ ترقی کرسکتے ہیں؟ جواب ہے جی ہاں!

وزیرِ خزانہ نے اپنی جماعت کے اندر سے ہونے والی تنقید کا سامنا تو کیا لیکن انہوں نے معاشی بحران کو روکنے کے لیے حکومت کی جانب سے کیے جانے والے کفایت شعاری کے اقدامات پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔

مگر ملک کی سیاسی صورتحال معاشی استحکام کے حکومتی مقصد کے آڑے آرہی ہے۔

پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت آنے کے بعد اتحادی حکومت اور عمران خان کے درمیان جاری محاذ آرائی مزید خطرناک ہوگئی ہے۔ مرکز اور صوبے کی حکومتیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آکھڑی ہوئی ہیں اور ایک دوسرے کے اقدامات کے بدلے میں کیے جانے والے اقدامات سے مزید سیاسی انتشار پھیل رہا ہے۔ اس کی ایک مثال شہباز گِل کی تحویل کے حوالے سے پیدا ہونے والی صورتحال ہے۔ اسی طرح کی مثال پنجاب حکومت کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے گھروں پر پڑنے والے پولیس چھاپے ہیں جن کی وجہ سے وہ رہنما صوبہ چھوڑ چکے ہیں۔

دوسری جانب وفاقی حکومت بھی فارن فنڈنگ کیس کے حوالے عمران خان پر دباؤ بڑھا رہی ہے۔ حکومت ایف آئی اے کو پی ٹی آئی کے ‘ممنوعہ فنڈز’ پر تحقیقات شروع کرنے کی ہدایات دے دی ہیں۔ دوسری جانب سرکاری افسران کے تبادلوں پر بھی تنازع برقرار ہے۔ مرکز اور صوبے کے درمیان ایک دوسرے سے بدلہ لینے کی سیاست نے ملک کو عدم استحکام اور غیر یقینی کے بھنور میں پھنسا دیا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہورہا ہے۔ مخالفین کی جانب سے لگائے گئے الزامات عمران خان کو متاثر نہیں کررہے کیونکہ انہیں جلسوں میں آنے والے عوام کی تعداد سے حوصلہ مل رہا ہے اور وہ سیاسی تناؤ کو کم کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ یہی صورتحال شہباز حکومت کی بھی ہے۔

اگرچہ وزیرِاعظم نے معاشی چارٹر پر اتفاق رائے کے لیے ‘نیشنل ڈائیلاگ’ کی ضرورت پر زور دیا ہے لیکن ان کی حکومت نے اس مقصد کے حصول کے لیے خاطر خواہ کوشش نہیں کی ہے۔ شاید وہ موجودہ صورتحال میں اسے لاحاصل کوشش سمجھتے ہوں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری موجودہ سیاست معاشی خطرے کو بڑھاتی رہے گی، مارکیٹ میں غیر یقینی کا باعث بنے گی اور سرمایہ کاروں کو بھی تذبذب کا شکار کیے رکھے گی۔ مزید یہ کہ مسلم لیگ (ن) اور اتحادی حکومت کے اندر معیشت کے حوالے سے موجود تنازعات سے یہ شکوک و شبہات پیدا ہورہے ہیں کہ آیا حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے معاہدوں پر قائم رہے گی یا نہیں۔

مزید پڑھیے: سعودی اور اماراتی ہمیں ترسا ترسا کر بھی پیسے کم کیوں دیتے ہیں؟

تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو آئی ایم ایف پروگرام کے حوالے سے پاکستان کا ریکارڈ اچھا نہیں رہا اور بار بار معاہدوں پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے یہ ایسے ملک کے طور پرمشہور ہوگیا ہے جسے صرف ایک ہی قسط جاری ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ بھی آئی ایم ایف پروگرام کے مستقبل کے بارے میں سوالات اٹھ رہے ہیں۔

آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کسی بھی صورت میں معاشی استحکام کی ضمانت نہیں ہوتا اور معاشی بحالی کا تو بالکل بھی نہیں۔ اس پروگرام کے لیے صرف ابتدائی اقدامات لینا ہی ضروری نہیں ہوتا بلکہ معاہدے پر قائم رہنا، وقت کے ساتھ ساتھ وعدہ کیے گئے اقدامات اٹھانا اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کا اعتماد حاصل کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف پہلے ہی حکومت کو متنبہ کرچکا ہے کہ ‘عالمی معیشت اور مالیاتی مارکیٹس میں بڑھتی ہوئی غیر یقینی کے باعث’ حکومت کو اضافی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔

پاکستان نے ماضی میں بھی ادائیگیوں کے توازن اور لکویڈٹی بحران کا سامنا کیا ہے لیکن جب بھی ملک کو مالی بحران کا سامنا ہوا کبھی بھی بیرونی حالات اتنے سخت نہیں تھے۔ ان حالات میں کورونا وبا کے آفٹر شاکس اور روس-یوکرین جنگ عالمی منڈیوں اور سپلائی چین پر اثر انداز ہورہی ہے۔ توانائی اور خوراک کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں اور عالمی سطح پر افراطِ زر میں اضافہ ہورہا ہے جس سے پاکستان کی مالی مشکلات بھی بڑھ رہی ہیں۔ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہورہا ہے جب عالمی سطح پر شرح سود بڑھ رہی ہے اور خاص طور پر مقروض ممالک کی مشکالات میں اضافہ ہورہا ہے۔

سیاسی غیر یقینی نے پہلے سے ہی مشکلات کا شکار معیشت پر مزید تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں۔ شرح مبادلہ اس غیر یقینی کا ایک پیمانہ ہے۔ یہ معاشی بنیادوں اور جذبات دونوں کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ غیر یقینی شرح مبادلہ کو متاثر کرتی ہے کیونکہ اس سے ملک میں آنے والا سرمایہ (بیرونی سرمایہ کاری، ترسیلاتِ زر اور برآمدات سے حاصل ہونے والی رقم) اور ملک سے جانے والا سرمایہ (درآمدات اور سرمایہ کاری) کا تعلق جذبات سے ہوتا ہے۔ حالیہ مہینوں میں دیکھا گیا کہ اس کے نتیجے میں روپے کی قدر کم ہوئی۔ روپے کی قدر میں ہونے والی کمی کی وجہ سے مہنگائی اور قرضوں میں بھی اضافہ ہوا۔

اس کے علاوہ نجی سرمایہ کاری کی سطح بھی اس بات کا اشارہ ہوتی ہے کہ کوئی ملک درست سمت میں جارہا ہے یا نہیں۔ سخت ترین پالیسی ایکشن کے باوجود بھی سیاسی عدم استحکام سرمایہ کاری کے ماحول کو متاثر کرسکتا ہے۔

مزید پڑھیے: کیا ہمارا معیارِ زندگی تسلی بخش ہے؟

ملک کے وفاقی نظام میں سیاسی تفریق بھی معیشت پر منفی اثرات مرتب کررہی ہے۔ مرکزی اور صوبائی حکومتیں سرمایہ کاری کے ماحول کو مختلف حوالوں سے ریگولیٹ کرتی ہیں۔ وفاقی حکومت ٹیکس استحکام فراہم کرتی ہے، مرکزی بینک بیرونی استحکام پر توجہ دیتا ہے جبکہ صوبے سرمایہ کاری کے لیے محفوظ ماحول تشکیل دیتے ہیں۔ لیکن جب سیاست اس قدر تقسیم ہو اور صوبے اور مرکز ایک دوسرے سے لڑرہے ہوں تو یہ نجی شعبے کے لیے نقصاندہ ہوتا ہے۔ ایسی صورتحال میں نجی شعبہ سرمایہ کاری سے کتراتا ہے۔ اس طرح پائیدار معاشی بحالی کے امکانات بھی کم ہوتے ہیں کیونکہ ان کا انحصار نئی سرمایہ کاری پر ہوتا ہے۔

ستم ظریفی دیکھیے کہ تمام ہی جماعتیں معاشی پالیسی کے بنیادی عناصر پر متفق ہیں۔ ان عناصر میں برآمدات کے ذریعے حاصل ہونے والی نمو، مالی خسارے کو کم کرنا، سادہ اور منصفانہ ٹیکس نظام کو تشکیل دینا، ٹیکس کی ادائیگی یقینی بنانا، کاروبار دوست ماحول تیار کرنا، مارکیٹ پر منحصر شرح مبادلہ کو تسلیم کرنا، دیوالیہ ہوچکے ریاستی اداروں کی نجکاری کرنا، مہنگائی کم کرنا، قرضوں میں کمی لانا اور حکومتی اخراجات کو محدود کرنا شامل ہے۔ تاہم سیاسی جماعتیں اس اتفاق کے باوجود سیاسی فوائد کے حصول کے لیے مختلف سمت میں سفر کررہی ہیں اور اس کی قیمت ملک کو معاشی عدم استحکام کی صورت میں ادا کرنی پڑرہی ہے۔


یہ مضمون 22 اگست 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (2) بند ہیں

اخترحسین Aug 24, 2022 05:32pm
خان کے علاوہ تمام سیاسی جوکروں کو لات مار کر ہمیشہ کیلئے سیاست سے نکالنے کی ضرورت ہے
انجینیر خالد Aug 24, 2022 06:16pm
بہترین تحریر لیکن عمل کون کرے گا