شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ میں 7 روز توسیع کی استدعا مسترد

اپ ڈیٹ 24 اگست 2022
پی ٹی آئی رہنما کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا — فوٹو: ڈان نیوز
پی ٹی آئی رہنما کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا — فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شہباز گل کا مزید 7 روزہ جسمانی ریمانڈ دینے کی اسلام آباد پولیس کی درخواست مسترد کردی۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کے چیف آف اسٹاف شہباز گل کو نجی نیوز چینل ‘اے آر وائی’ پر متنازع بیان دینے کے بعد اسلام آباد پولیس نے بغاوت اور عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے کے الزام میں 9 اگست کو حراست میں لیا تھا۔

اسلام آباد پولیس نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت سے شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ میں مزید 7 روز کی توسیع کی درخواست کی تھی جسے مسترد کردیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: وزارت داخلہ شہباز گل پر تشدد کے الزامات کی انکوائری کرائے، اسلام آباد ہائی کورٹ

شہباز گل کو 2 روزہ جسمانی ریمانڈ ختم ہونے کے بعد عدالت پہنچایا گیا تھا۔

جسمانی ریمانڈ مسترد کرنے کا فیصلہ جوڈیشل مجسٹریٹ ملک امان نے جاری کیا۔

اسلام آباد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے اسلام آباد پولیس کی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔

قبل ازیں دوران سماعت پراسیکیوٹر راجا رضوان عباسی کا کہنا تھا کہ ہر روز پولیس ملزم سے تفتیش کر رہی ہے، اسلحہ کے مقدمہ میں جوڈیشل کی استدعا ہے، ملزم کی حراست بہت ضروری ہے، پولی گرافک ٹیسٹ بھی کرانا ہے۔

مزید پڑھیں: عدالت کا شہباز گل کو پمز ہسپتال بھیجنے اور دوبارہ میڈیکل کرانے کا حکم

پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ شہباز گل کی تفتیش میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا گیا، ابھی بھی تفتیش مکمل نہیں ہوئی، گھنٹوں کے ریمانڈ میں فونز، 4 یو ایس بیز اور اس کے کمرے کی تلاشی لی گئی، ابھی بھی ہمیں کچھ سوالات کے جوابات درکار ہیں۔

پراسیکیوٹر نے مؤقف اپنایا کہ مرکزی موبائل فون جو شہباز گل استعمال کرتا تھا اس کی برآمدگی مقصود ہے، پولی گرافک ٹیسٹ لاہور سے کرانا ہے، اس لیے ملزم شہباز گل کا مزید 7 روز کا جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔

جج نے استفسار کیا کہ پولی گرافک ٹیسٹ کی پرانے ریمانڈ میں استدعا نہیں کی تھی جس پر پراسیکیوٹر نے بتایا کہ پچھلے ریمانڈ میں استدعا نہیں تھی، جو ریمانڈ معطل ہوا اس میں استدعا تھی۔

جج نے ریمارکس دیے کہ 22 اگست کے حکم نامہ میں تو پولی گرافک ٹیسٹ کے بارے میں اسلام آباد کا کہا گیا ہے جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ وہ شاید کا لفظ ہے، اگر اسلام آباد میں ہوا تو ادھر سے کروالیں گے، کچھ پیش رفت ہوئی ہے اور ابھی بھی کچھ تفتیش رہتی ہے، کچھ برآمدگی اور ملزمان کے متعلق پوچھ گچھ کرنی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز گل پر مبینہ تشدد، اسلام آباد ہائیکورٹ نے آئی جی سے رپورٹ طلب کرلی

پراسیکیوٹر نے کہا کہ اگر پیش رفت نہ ہو تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ پیش رفت نہیں ہوئی، ملزم کے ریمانڈ کے لیے 15 دن تک ریمانڈ کی ہمیں اجازت مل سکتی ہے، دو دنوں کا جو ریمانڈ ملا اس کی پیش رفت موجود ہے، ایک مقدمہ بھی درج ہوا، اسلحہ کے مقدمہ میں ہم نے خود کہا کہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجا جائے۔

انہوں نے کہا کہ شہباز گل سے موبائل فون برآمد کرنا ہے، کچھ باتیں پوچھ چکے ہیں کچھ تفتیش ابھی رہتی ہے، تفتیشی نے دیکھنا ہے تفتیش مکمل ہوئی یا نہیں، ہم عدالت سے کوئی غیر قانونی درخواست نہیں کر رہے، 4 دنوں کی پیش رفت موجود ہے، تفتیش مکمل نہیں ہو سکی۔

جج نے استفسار کیا کہ میڈم کی عدالت نے 48 گھنٹے دیے اور میں نے بھی 48 گھنٹے دیے، کیا میڈم نے میرے لیے راستہ چھوڑا کہ مزید جسمانی ریمانڈ دوں جس پر پراسیکیوٹر نے ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری کا حکم نامہ پڑھنا شروع کردیا۔

پراسیکیوٹر نے کہا کہ ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری نے کم سے کم ٹائم دیا انہوں نے گیٹ تو بند نہیں کیا، عدالت نے یہ تو نہیں کہا کہ پولیس کو آخری موقع دیا جاتا ہے تفتیش مکمل کرے، ایڈیشنل سیشن جج نے آپ کے کوئی ہاتھ نہیں باندھے۔

مزید پڑھیں: شہباز گل کو تحویل میں لینے کے معاملے پر اسلام آباد اور راولپنڈی پولیس کے درمیان رسہ کشی

جج نے ریمارکس دیے کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ میرے ہاتھ نہیں بندھے جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہماری استدعا منظور کر کے ملزم شہباز گل کو پولیس کے حوالے کیا جائے۔

شہباز گل کے وکلا کے دلائل

پراسیکیوٹر کے بعد ملزم شہباز گل کے وکلا نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے میڈیا کے تعاون سے چھاپہ مارا۔

وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ پولیس نے جتنی بھی جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی ایک ہی بات موبائل فون برآمد کرنا ہے، چار موبائل فون پولیس برآمد کرچکی ہے، پولیس کو کون سے موبائل فون کی ضرورت ہے۔

وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ لینڈ لائن نمبر پر بیپر ہوا اس کا فرد مقبوضگی نہیں بنتا، ان کو ابھی یہ نہیں معلوم اسلام آباد میں پولی گرافک ٹیسٹ کی سہولت ہے یا نہیں، 16 دن ہو چکے پولیس نے سوائے تشدد کے کچھ بھی نہیں کیا۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی رہنما شہباز گِل اڈیالہ جیل سے پمز ہسپتال اسلام آباد منتقل

انہوں نے کہا کہ پراسیکیوٹر نے خود تسلیم کیا جیل میں تفتیش ہوسکتی ہے، تقریر کی بھی ٹکرے اکٹھے کر کے مقدمہ درج کیا گیا۔

اپنے دلائل کے دوران فیصل چوہدری نے پولیس کی جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی مخالفت کی۔

ان کا کہنا تھا کہ شہباز گل کو الٹا ننگا کر کے مارا گیا، ہائی کورٹ نے تشدد پر جوڈیشل انکوائری کا حکم دیا، ہم نے تشدد کو ایک ذریعہ بنا لیا ہے، صحافی، وکیل سمیت کوئی بھی شہری پولیس کے ہتھے چڑھتا ہے اسے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ شہباز گل پروفیسر ہیں، چار دن میں پولیس نے صفر تفتیش کی ہے، مقدمہ کے اخراج کی درخواست پر عدالت عالیہ نے نوٹس جاری کیا ہوا ہے۔

ملزم کے وکیل علی بخاری نے کہا کہ شہباز گل پر اس سے پہلے کوئی کیس نہیں ہے، 16 دنوں میں ان کو یہ نہیں پتا چلا کہ انہوں نے پولی گرافک ٹیسٹ کدھر سے کرانا ہے۔

مزید پڑھیں: شہباز گِل کو دوبارہ جسمانی ریمانڈ پر بھیجنے کا فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج

ملزم کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد جج نے پراسیکیوٹر کو ہدایت کی کہ آپ دلائل مکمل کر لیں۔

جج نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے تشدد کی انکوائری کا حکم دے دیا ہے، انکوائری افسر نے اپنی رپورٹ جمع کرانی ہے، جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ شہباز گل نے تشدد کا الزام لگایا اور میڈیا پر آیا ہے۔

دوران سماعت شہباز گل کے وکلا اور پراسیکیوٹر کے درمیان نوک جھونک ہوئی جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ اگر شہباز گل کے وکلا کا یہ رویہ رہے گا تو میں دلائل نہیں دے سکوں گا جس پر جج نے کہا کہ آپ خاموش ہوجائیں، میں آپ کو بھی 2 منٹ مزید دے دوں گا۔

پراسیکیوٹر نے کہا کہ جو موبائل فون برآمد کرنا ہے، اس کا آئی ایم ای آئی پولیس ڈائری میں لکھا ہے، ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ساڑھے تین کروڑ موبائل فون برآمد کرنے ہیں۔

فریقین کے دلائل سننے کے بعد جوڈیشل مجسٹریٹ ملک امان نے شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کر لیا جس بعد میں سناتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما کے مزید 7 روزہ جسمانی ریمانڈ کی اسلام آباد پولیس کی درخواست مسترد کردی گئی اور انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔

شہباز گل کا متنازع بیان

9 اگست کو پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے نجی ٹی وی چینل ‘اے آر وائی’ نیوز کو اپنے شو میں سابق وزیرِا عظم عمران خان کے ترجمان شہباز گل کا تبصرہ نشر کرنے پر شوکاز نوٹس جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ان کا بیان ‘مسلح افواج کی صفوں میں بغاوت کے جذبات اکسانے کے مترادف تھا’۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز گل مزید 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر اسلام آباد پولیس کے حوالے

اے آر وائی کے ساتھ گفتگو کے دوران ڈاکٹر شہباز گل نے الزام عائد کیا تھا کہ حکومت، فوج کے نچلے اور درمیانے درجے کے لوگوں کو تحریک انصاف کے خلاف اکسانے کی کوشش کر رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘فوج میں ان عہدوں پر تعینات اہلکاروں کے اہل خانہ عمران خان اور ان کی پارٹی کی حمایت کرتے ہیں جس سے حکومت کا غصہ بڑھتا ہے’۔

انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کا ‘اسٹریٹجک میڈیا سیل’ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور مسلح افواج کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے کے لیے غلط معلومات اور جعلی خبریں پھیلا رہا ہے۔

شہباز گل نے کہا تھا کہ جاوید لطیف، وزیر دفاع خواجہ آصف اور قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر ایاز صادق سمیت دیگر حکومتی رہنماؤں نے ماضی میں فوج پر تنقید کی تھی اور اب وہ حکومتی عہدوں پر ہیں۔

پیمرا کی جانب سے نوٹس میں کہا گیا کہ اے آر وائی نیوز پر مہمان کا دیا گیا بیان آئین کے آرٹیکل 19 کے ساتھ ساتھ پیمرا قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں