پاکستان میں 21 فیصد لڑکیوں کی شادی کم عمری میں کردی جاتی ہے، ماہرین

اپ ڈیٹ 26 اگست 2022
دنیا بھر میں کم عمر لڑکیوں کی شادیوں کی فہرست میں پاکستان چھٹے نمبر پر ہے—تصویر:اے ایف پی
دنیا بھر میں کم عمر لڑکیوں کی شادیوں کی فہرست میں پاکستان چھٹے نمبر پر ہے—تصویر:اے ایف پی

پاکستان میں ہر سال 18 سال سے کم عمر 21 فیصد لڑکیوں کو معیاری تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے بجائے اُن کی شادی کردی جاتی ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق یہ مشاہدہ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ (ترمیمی) بل 2022 کی ایک کانفرنس میں کیا گیا جہاں مقررین نے اس بات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ہر سال 19 لاکھ لڑکیوں کی شادی کم عمری میں کردی جاتی ہے، ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں کم عمر لڑکیوں کی شادیوں کی فہرست میں پاکستان چھٹے نمبر پر ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ہر 7 سیکنڈ میں ایک کم عمر لڑکی کی شادی کردی جاتی ہے: رپورٹ

کانفرنس کا اہتمام خواتین کی حیثیت سے متعلق قومی کمیشن نے اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ (یو این ایف پی اے) کے تعاون سے کیا گیا تھا۔

اس حوالے سے مختلف اسٹیک ہولڈرز اور مقررین کو مدعو کیا گیا جن میں وزارت انسانی حقوق، وزارت قانون و انصاف، وومن پارلیمانی کاکس، قانونی مدد اور انصاف کی اتھارٹی، بچوں کے حقوق کے حوالے سے نیشنل کمیشن کے ساتھ ساتھ مقامی حکومتی نمائندوں کو بھی مدعو کیا گیا۔

بچیوں کی کم عمری میں شادیاں انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کے اہم مسائل میں سے ایک ہے، ان مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے مجوزہ بل چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929 میں کچھ ضروری ترامیم متعارف کروائی گئی ہیں۔

اس مسئلے پر بحث کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ یہ بل وقت کی ضرورت ہے کیونکہ اس کا مقصد بچوں کے آئینی حقوق کو یقینی بنانا ہے، آئین کا آرٹیکل 25 (2) اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ریاست بچوں کے تحفظ کے لیے خصوصی انتظامات کرسکتی ہے۔

مزید پڑھیں: 'کم عمری کی شادی خواتین میں صحت کے مسائل پیدا کرتی ہے'

پاکستان نے بچوں کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن (یو این سی آر سی) کی توثیق کی ہے اور ان پر عمل کرنے کا پابند ہے، اس بل سے یو این سی آر سی کے نفاذ کی کوششوں کو بھی تقویت ملے گی۔

تھیلیسیمیا کی روک تھام کے حوالے سے بات کرتے ہوئے پارلیمانی سیکریٹری برائے انسانی حقوق سیدہ نوشین افتخار نے کم عمری میں شادی کرنے والے جوڑے کی تھیلیسیمیا ٹیسٹ کے حوالے سے نئی شقیں شامل کرنے کی سفارش کی۔

انہوں نے کہا کہ ٹیسٹ رپورٹس کو نکاح نامے کے ساتھ منسلک کیا جانا چاہیے کیونکہ پاکستان میں سالانہ 6 سے 8 ہزار تھیلیسیمیا کے مریضوں میں اضافہ ہو رہا ہے جہاں اس کے برعکس خون عطیہ کرنے والوں کی تعداد مریضوں کے مقابلے میں کم ہے۔

انسانی حقوق کے وزیر ریاض حسین پیرزادہ نے کہا کہ پاکستان میں کم عمری میں شادیوں سے ملک میں غربت میں اضافہ ہو رہا ہے اور خاص طور پر بچیوں کی صحت پر منفی اثرات بھی مرتب ہو رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: نصف سے زائد جنوبی ایشیائی لڑکیوں کی شادی کم عمری میں

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کم عمر لڑکیاں جنسی اور جسمانی استحصال، طبی پیچیدگیوں اور دیگر جسمانی اور سماجی منفی نتائج جیسے خطرات سے دوچار ہیں، اس معاملے پر عوام میں بیداری پیدا کرنا ضروری ہے خاص طور پر ان ممالک میں جہاں کم عمری میں شادیوں کا تناسب بہت زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ عوام میں اس بات کا لازمی شعور ہونا چاہیے کہ شادی اُس وقت کی جائے جب دونوں لڑکا اور لڑکی جسمانی اور ذہنی طور تیار ہوں خاص طور پر اگلی نسل کو جنم دینے کے لیے ان کا ہر لحاظ سے صحت مند ہونا لازمی ہے۔

وفاقی وزیر نے خواتین سے متعلق قومی کمیشن کی چیئرپرسن نیلوفر بختیار کو تمام اہم اسٹیک ہولڈرز کا ایک پلیٹ فارم پر یکجا ہونے پر مبارکباد دی، انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ ہمارے لیے ایک چیلنج ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں