خیبر پختونخوا کے وزیر خزانہ تیمور خان جھگڑا نے وفاقی وزیر وزارت خزانہ کو کہا ہے کہ ان کی انتظامیہ اس سال صوبائی سرپلس فراہم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی جو کہ ایک ایسی اہم ضرورت ہے جس پر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام کی بحالی کے لیے اتفاق کیا گیا تھا۔

وفاقی حکومت نے جولائی میں آئی ایم ایف کے ساتھ اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں پر اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ صوبوں کی طرف سے مشترکہ طور پر مرکز کو 750 ارب روپے کیش سرپلس فراہم کرنے کے لیے یاداشت نامہ پیش کیا جائے گا۔

بعدازاں کے پی حکومت ایم او یو پر دستخط کرنے والی بن گئی جس نے وفاقی حکومت کی جانب سے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کے بعد سرپلس رقم خرچ کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

کے پی حکومت کے ان خدشات کا تعلق سابق فاٹا کی فنڈنگ اور دیگر مسائل سے تھا جن میں قبائلی علاقوں کے لیے وفاقی صحت سہولت پروگرام کی منتقلی کے ساتھ ساتھ مرکز کو فنڈنگ، قبائلی اضلاع کے لیے فنڈز اور نیٹ ہائیڈل منافع کی باقاعدہ ادائیگی شامل تھی۔

مزید پڑھیں:آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے ہوگئے، معاہدہ اسی ہفتے ہوجائے گا، مشیر خزانہ

وزیر خزانہ کے پی نے اس وقت وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کو لکھے گئے ایک خط میں کہا تھا کہ ایم او یو کے اہداف اور شرائط کے پی کے بجٹ میں 1.322 کھرب روپے کی صوبے کو موصول ہونے والی رقم کی مکمل حد تک مشروط ہوں گے۔

کے پی حکومت کی طرف سے سرپلس کو چلانے میں ناکامی کی وجوہات بتائے ہوئے انہوں نے کہا کہ بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے صوبائی انفراسٹرکچر کو بھاری مالی نقصان پہنچا ہے۔

صوبائی وزیر نے وفاقی وزیر کو یاد دلایا کہ کے پی نے عظیم تر قومی مفاد میں ایم او یو پر دستخط کیے تھے تاہم، بار بار درخواستوں کے باوجود وزیر یا سیکریٹری کو ہم سے ملاقات کا وقت نہیں مل سکا۔

انہوں نے خط میں کہا کہ حکومت کو سابق فاٹا کے لیے بجٹ مختص کرنے کا معاملہ حل کرنا چاہیے تھا، جو کہ اپ ڈیٹ شدہ این ایف سی ایوارڈ کی عدم موجودگی میں وفاقی حکومت کی صوابدید پر فیصلہ کیا گیا تھا۔

صوبائی وزیر خزانہ نے خط کے ذریعے حکومت کو یہ بھی کہا کہ 2016 میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان طے پانے والے ایم او یو میں بیان کردہ شرائط کے مطابق نیٹ ہائیڈل منافع کی ماہانہ منتقلی کا عہد کیا جائے۔

انہوں نے قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ فوری طور پر بحال کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

تیمور جھگڑا نے کہا کہ وفاقی حکومت کو خیبرپختونخوا حکومت کو درپیش دیگر مالیاتی مسائل فوری طور پر حل کرنے کا عزم بھی کرنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف 'قرض پروگرام' میں 2 ارب ڈالر کا اضافہ کرنے پر رضامند

انہوں نے خط میں لکھا کہ ہمارا اندازہ ہے کہ ان مسائل کو حل نہ کرنے کا مجموعی اثر درحقیقت خیبر پختونخواہ کے بجٹ میں 100 ارب روپے کی غیر فنڈز اخراجات کا مسئلہ پیدا کرنے کا باعث ہوسکتا ہے۔

صوبائی وزیر نے کہا کہ سوات، ڈی آئی خان اور ٹانک میں شدید سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے صورت حال مزید مشکل ہو گئی ہے جبکہ ریسکیو، ریلیف، بحالی اور تعمیرات کی مد میں آنے والے اخراجات کئی ارب تک جانے کا خدشہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں اور اس سے قبل نمایاں کیے گئے مسائل کے حل کے بغیر کے پی کے لیے سرپلس چھوڑنا ناممکن ہوگا۔

صوبائی سرپلس وہ رقم ہے جو صوبے وفاقی حکومت کی طرف سے منتقل کیے گئے فنڈز سے خرچ نہیں کرتے۔

پاکستان اور آئی ایم ایف معاہدہ

مئی 2019 میں پاکستان نے 6 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج پر مہینوں تک بات چیت کے بعد آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کیا تھا۔

39 ماہ کا بیل آؤٹ پروگرام پاکستان کی معاشی پالیسی اور ترقی کے آئی ایم ایف کے باقاعدہ جائزوں سے مشروط ہے۔

اس انتظام میں ملکی اور بیرونی عدم توازن کم کرنے، ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے، شفافیت بڑھانے اور سماجی اخراجات کو مضبوط بنانے پر زور دیا گیا ہے۔

واشنگٹن میں ایک نیوز بریفنگ میں اس وقت شوکت ترین نے تسلیم کیا تھا کہ آئی ایم ایف نے بجلی اور گیس کی قیمتوں اور ٹیکس کی شرح میں اضافے کی تجویز دی تھی لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ ساختی تبدیلیوں کے بغیر ٹیرف میں اضافہ ’صرف مہنگائی میں اضافے کا باعث ہوتا ہے اور ہماری صنعت غیر مسابقتی بن جاتی ہے‘۔

تاہم انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ پاکستان کو بھی آئی ایم ایف کا نکتہ نظر دیکھنا ہوگا اور اس معاملے پر آئی ایم ایف حکام کے ساتھ ’کچھ تکنیکی بات چیت‘ کی ہے۔

آئی ایم ایف کے مطالبات اصل معاہدے پر مبنی ہیں جس پر پاکستان نے 2019 میں دستخط کیے تھے تاکہ اگلے تین برسوں کے لیے ملک کے میکرو اکانومک اور اسٹچرکچرل اصلاحات کے ایجنڈے کے لیے تعاون حاصل کیا جا سکے۔

رواں برس 21 جون کو پاکستانی حکام اور آئی ایم ایف کے عملے کا مشن رواں مالی سال کے وفاقی بجٹ پر تعطل کا شکار قرض پروگرام بحال کرنے کے لیے ایک مفاہمت تک پہنچا تھا، جب حکام نے مزید ٹیکسوں کی مد میں 436 ارب روپے پیدا کرنے اور پیٹرولیم لیوی بتدریج بڑھا کر 50 روپے فی لیٹر کرنے کا عہد کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:آئی ایم ایف حکام سے ملاقات کیلئے مفتاح اسمٰعیل امریکا روانہ

اس کے نتیجے میں آئی ایم ایف کے عملے نے ایک بیان میں تسلیم کیا تھا کہ وفاقی بجٹ کے حوالے سے اہم پیش رفت ہوئی ہے۔

اس کی بنیاد پر پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ صوبوں سے 750 ارب روپے نقد سرپلس مرکز کو فراہم کرنے کا تحریری وعدہ کیا تھا تاکہ مالیاتی خسارے کو جی ڈی پی کے 4.9 فیصد کے اندر اندر رکھا جا سکے اور 152 ارب روپے کا بنیادی مالیاتی سرپلس پیدا کرنے میں مدد ملے۔

28 جون کو وفاقی وزیر مفتاح اسمٰعیل نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان کو ساتویں اور آٹھویں مشترکہ جائزوں کے لیے آئی ایم ایف سے میمورنڈم آف اکنامک اینڈ فسکل پالیسیز موصول ہوا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں