روس اور طالبان حکام کے درمیان جلد توانائی معاہدہ متوقع

اپ ڈیٹ 30 اگست 2022
حبیب الرحمان حبیب نے بتایا کہ معاہدے کی تکمیل کے بعد تفصیلات فراہم کی جائیں گی—فائل فوٹو: اے ایف پی
حبیب الرحمان حبیب نے بتایا کہ معاہدے کی تکمیل کے بعد تفصیلات فراہم کی جائیں گی—فائل فوٹو: اے ایف پی

افغان وزارت تجارت کے حکام نے بتایا کہ ماسکو میں موجود طالبان انتظامیہ روس سے پیٹرول اور بینزین کی خریداری کے لیے معاہدے کی شرائط پر بات چیت کے آخری مراحل میں ہے۔

ڈان اخبار میں شائع خبررساں ادارے ’رائڑرز‘ کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کی وزارت تجارت اور صنعت کے ترجمان حبیب الرحمان حبیب نے تصدیق کی کہ وزارت تجارت کی سربراہی میں ایک سرکاری وفد روسی دارالحکومت میں موجود ہے اور گندم، گیس اور تیل کی فراہمی کے معاہدوں کو حتمی شکل دے رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہا ’وہ روسی فریق کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں، معاہدے کی تکمیل کے بعد تفصیلات فراہم کی جائیں گی‘۔

وزیر تجارت اور صنعت کے دفتر کے ذرائع نے بتایا کہ ان کی وزارت اور وزارت خزانہ کے تکنیکی عہدیداروں نے رواں ماہ وزارتی وفد کے دورے کے بعد معاہدوں پر کام کرنے کے لیے ماسکو میں قیام کیا۔

یہ بھی پڑھیں: روس کا طالبان کی ’عبوری حکومت ‘ پر تحفظات کا اظہار

انہوں نے کہا کہ ’ہم معاہدے کے متن پر کام کر رہے ہیں، پیٹرول اور بینزین پر تقریباً متفق ہو چکے ہیں، توقع ہے کہ یہ جلد پایہ تکمیل کو پہنچے گا‘۔

روس کی وزارت خارجہ اور توانائی کے ترجمانوں نے اس حوالے سے تبصرے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔

یہ معاہدہ ایسے وقت میں ہورہا ہے جب رواں ماہ کے وسط میں قائم مقام وزیر تجارت کی قیادت میں طالبان کے ایک وفد نے تجارت پر بات چیت کے لیے روس کا دورہ کیا جبکہ دوسری جانب امریکا دیگر ممالک کو روسی تیل کے استعمال میں کمی کے لیے قائل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

طالبان انتظامیہ کو ایک سال قبل افغانستان پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سے کسی بھی بین الاقوامی حکومت نے سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا ہے لیکن اگر روس کے ساتھ یہ معاہدہ پایہ تکمیل ہو جاتا ہے تو یہ اس بات کی علامت سمجھی جائے گی کہ بیرون ممالک طالبان کے ساتھ کاروبار کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: طالبان کی امداد کیلئے تیار ہیں، ابھی حکومت کو تسلیم نہیں کرسکتے، ماسکو

روس اور طالبان کی زیر قیادت افغانستان، دونوں کو امریکا سمیت بین الاقوامی حکومتوں کی جانب سے اقتصادی پابندیوں کا سامنا ہے۔

روس سمیت کوئی بھی غیر ملکی حکومت طالبان انتظامیہ کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کرتی، افغانستان کے بینک پابندیوں کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں جس کی وجہ سے افغان بینکوں کے ساتھ بیشتر عالمی بینک لین دین کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

سرکاری ذرائع نے کہا کہ ادائیگیوں کے لیے ان کے پاس منصوبہ موجود ہے تاہم انہوں نے اس حوالے سے تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کردیا کہ آیا اس مقصد کے لیے سرکاری بینکنگ چینلز استعمال کیے جائیں گے یا نہیں۔

افغانستان کے مرکزی بینک کے منجمد اثاثوں، بینکنگ سیکٹر پر پابندیوں اور بیرون ممالک کی جانب سے باضابطہ طور پر تسلیم نہ کیے جانے کے باوجود چند ممالک افغانستان کے ساتھ کاروبار کر رہے ہیں جس سے اسے ملکی اقتصادی بحران کے دوران عالمی منڈیوں تک رسائی میں مدد مل رہی ہے۔

پاکستان، افغانستان سے روزانہ ہزاروں ٹن کوئلہ حاصل کر رہا ہے جسے وہ توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے استعمال کرتا ہے، یہ لین دین دونوں ممالک میں نجی کاروباری سیکٹر کی جانب سے کی جاتی ہے اور طالبان انتظامیہ کوئلے کی برآمدات پر ڈیوٹی وصول کرتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں