اے آر وائی کے صحافی ارشد شریف سے 'راستے جدا'

31 اگست 2022
—فوٹو: معید پیرزادہ ٹوئٹر
—فوٹو: معید پیرزادہ ٹوئٹر

نجی ٹی وی چینل اے آر وائی نیوز نے کوئی خاص وجہ کا حوالہ دیے بغیر معروف اینکر پرسن ارشد شریف سے 'راستے جدا' کرتے ہوئے کہا کہ ان کی توقع ہے کہ سوشل میڈیا پر ان کے ملازمین کا رویہ کمپنی کے قواعد کے مطابق ہو۔

اے آر وائی کی طرف سے یہ اعلان اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر کیا گیا۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: ایف آئی اے کو صحافی ارشد شریف کو ہراساں نہ کرنے کی ہدایت

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اے آر وائی نیٹ ورک کا اپنے ملازمین کے لیے قواعد و ضوابط اس بات کو واضح کرتا ہے کہ ملازمین کی سوشل میڈیا پر کی گئی پوسٹ کمپنی کی پالیسی کے تحت ہوگی‘۔

اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ’اس طرح، ہم بھاری دل کے ساتھ یہ اعلان کرنا چاہتے ہیں کہ 8 سال ایک ساتھ سفر کرنے کے بعد، اے آر وائی نے ارشد شریف سے راستے جدا کرلیے ہیں، ہم ان کے مستقبل کی کوششوں کے لیے نیک خواہشات رکھتے ہیں۔

تاہم، کمپنی کی طرف سے ایسی کوئی سوشل میڈیا کی پوسٹ منسلک نہیں کی گئی جو ارشد شریف کے طرف سے کی گئی ہو۔

یہ بھی پڑھیں: 'ریاستی اداروں' پر مبینہ تنقید، سینئر صحافیوں کے خلاف ایف آئی آر درج

قبل ازیں اس مہینے کے آغازمیں پولیس نے ارشد شریف، اے آر وائی ڈیجیٹل نیٹ ورک کے صدر اور سی ای او سلمان اقبال، نیوزاینڈ کرنٹ افیئرز کے سربراہ عماد یوسف، اینکر پرسن خاور گھمن اور ایک پروڈیوسر کے خلاف 8 اگست کو پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹر شہباز گل کے چینل پر نشر کیے گئے ایک متنازع انٹرویو پر بغاوت کا مقدمہ درج کیا تھا۔

ایک دن بعد، وزارت داخلہ نے اس فیصلے کی وجہ کے طور پر'ایجنسیوں کی طرف سے منفی رپورٹس' کا حوالہ دیتے ہوئے چینل کا این او سی کا سرٹیفکیٹ منسوخ کر دیا تھا اور اس کے بعد ارشد شریف ملک سے باہر چلے گئے تھے۔

بعدازاں وزارت داخلہ نے اس فیصلے کی وجہ کے طور پر "ایجنسیوں کی طرف سے منفی رپورٹس" کا حوالہ دیتے ہوئے چینل کا عدم اعتراض کا سرٹیفکیٹ منسوخ کر دیا تھا۔

اس کے بعد شریف ملک سے باہر چلے گئے تھے۔

اے آر وائی نیوز کے آج کے اعلان کے فوراً بعد، انٹرنیشنل ہیومن رائٹس فاؤنڈیشن نے ایک ٹوئٹ میں اس پیش رفت کی مذمت کی ہے۔

انٹرنیشنل ہیومن رائٹس فاؤنڈیشن نے اپنے بیان میں کہا کہ صحافی ارشد شریف کی برطرفی کی شدید مذمت کرتے ہیں، جنہوں نے ایک اچھے پیشہ ور، تنقیدی شہری اور دانش ورانہ طور پر ایمان دار ہونے کا ثبوت دیا۔

تبصرے (0) بند ہیں