ہم نہیں چاہتے پاکستان، امریکا اور چین میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے، امریکی مشیر

اپ ڈیٹ 01 ستمبر 2022
عمران خان کے تمام دعوے بے بنیاد ہیں، ان الزامات میں کوئی سچائی نہیں، ڈیرک شول — فوٹو: رائٹرز
عمران خان کے تمام دعوے بے بنیاد ہیں، ان الزامات میں کوئی سچائی نہیں، ڈیرک شول — فوٹو: رائٹرز

امریکی سیکریٹری خارجہ کے سینئر مشیر ڈیرک شول نے کہا ہے کہ امریکا، پاکستان سے یہ نہیں چاہتا کہ وہ امریکا اور چین میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے بلکہ یہ اُمید کرتا ہے کہ تمام ممالک خود اس بات کا فیصلہ کریں گے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ڈیرک شول نے کہا کہ امریکا کو تشویش ہے کہ جو ممالک چین کے ساتھ تعلقات استوار کرتے ہیں ان کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔

یہ بھی پڑھیں: چین یا امریکا؟ کسی ایک ملک کا انتخاب پاکستان کے لیے کتنا خطرناک ہوسکتا ہے؟

ڈان کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکا، چین کے ساتھ کسی قسم کی مسابقت سے نہیں ڈرتا اور ہم چین کے ساتھ منصفانہ اور شفاف مسابقت کے خواہشمند ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا کے بھارت اور پاکستان کے ساتھ اصولی اختلافات ہیں لیکن ہم پاکستان کے ساتھ اپنے مضبوط تعلقات برقرار اور وسیع تر رکھنا چاہتے ہیں۔

’عمران خان کے تمام دعوے بے بنیاد ہیں‘

ڈیرک شول نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے امریکا پر اقتدار میں تبدیلی کے حوالے سے لگائے گئے الزامات کے بارے میں بھی بات کرتے ہوئے کہا کہ ’عمران خان کے تمام دعوے بے بنیاد ہیں۔‘

مزید پڑھیں: پاکستان کو چین اور امریکا دونوں کی ضرورت بننا ہوگا

ڈان نے جب سوال پوچھا کہ کیا امریکا کے سابق وزیراعظم عمران خان کے ساتھ تعلقات بہتر نہیں تھے اور ان الزامات کی وجہ سے کیا عمران خان عالمی ریاستوں میں سب سے کم پسند کیے جانے والے سیاستدان ہیں؟ تو ڈیرک شول نے جواب میں کہا کہ ’میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ ان تمام الزامات کی کوئی صداقت نہیں‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہماری توجہ اس بات پر مرکوز ہونی چاہیے کہ امریکا ۔ پاکستان تعلقات کس سمت میں گامزن ہیں، جو ناصرف اس بات کی عکاسی کرتے ہوں کہ جو کچھ ہم نے گزشتہ 75 برسوں میں حاصل کیا ہے بلکہ اس بات کی بھی عکاسی کریں جو ہم اگلے 75 برسوں میں حاصل کریں گے۔

’سیلابی صورتحال سے نمٹنے کیلئے مزید امداد دینے کو تیار ہیں‘

امریکی عہدیدار نے پاکستان میں تباہ کن سیلابی صورتحال کے حوالے سے نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کی جانب سے 3 کروڑ ڈالر کی امداد کا اعلان کردیا گیا ہے اور ہم مزید امداد دینے کو تیار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’ 2010 کے بعد سے اس طرح کا خطرناک سیلاب پہلے کبھی نہیں دیکھا، یہ سیلاب 2010 کے سیلاب سے بھی بدتر ہے، موسمیاتی تبدیلی کے باعث پاکستان میں خوفناک سیلاب آیا ہے، جس کی وجہ سے شدید المناک صورتحال پیدا ہوئی‘۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان کی صورتحال پر امریکا کا پاکستان، بھارت، چین اور روس سے رابطہ

ان کا کہنا تھا کہ امریکا اس خوفناک قدرتی آفت سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی مدد کرنے کو تیار ہے، امریکا بین الاقوامی برادری اور اپنے شراکت داروں سے مدد کی اپیل کرے گا۔

ڈیرک شول کا کہنا تھا کہ امریکا سیلاب زدگان کے لیے ایک کروڑ 60 لاکھ ڈالر امداد جمع کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے ساتھ تعاون کرے گا۔

’چین سے مزید وسیع تر تعلقات کے خواہاں ہیں‘

امریکا کے چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے تنازعات کے حوالے سے اُن کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کے چین کے ساتھ بہت پرانے تعلقات ہیں، ہم عالمی دنیا کو امریکا اور چین میں سے کسی ایک کا انتخات کرنے کو نہیں کہہ رہے بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ تمام ممالک اس قابل ہوں کہ وہ خود فیصلہ کر سکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم چین سے مزید وسیع تر تعلقات کے خواہاں ہیں، ہمارے چین کے ساتھ معاشی تعلقات بہت مضبوط ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اسے مزید بہتر بنا سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: امریکا، چین کا پاکستان اور بھارت پر براہِ راست مذاکرات کیلئے زور

’پاکستان، امریکا کیلئے انتہائی اہم ملک ہے‘

ڈان نے جب سوال پوچھا کہ کیا پاکستان، امریکا کے لیے اسٹریٹجک اہمیت رکھتا ہے؟ تو امریکی مشیر نے کہا کہ ’جی بالکل، پاکستان دنیا کے بڑے مسلمان ممالک میں سے ایک ہے جبکہ دنیا میں پاکستان کی آبادی پانچویں یا چھٹے نمبر پر ہے، اسی وجہ سے پاکستان امریکا کے لیے انتہائی اہم ملک ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’دونوں ممالک کے تعلقات اگلے 75 سالوں میں مزید مستحکم اور گہرے ہوں گے، تاکہ آنے والے دنوں میں دونوں ممالک مشترکہ مفادات اور اہداف حاصل کر سکیں‘۔

ڈان نے جب سوال کیا کہ پاکستان کے عوام ایسا کیوں محسوس کرتے ہیں کہ امریکا، پاکستان کے مقابلے بھارت کو زیادہ ترجیح دیتا ہے، مثال کے طور پر امریکا بھارت کو روس سے سستا تیل خریدنے کی اجازت دے سکتا ہے لیکن پاکستان کو ایسا کرنے سے روکتا ہے، کیا اس کی کوئی خاص وجہ ہے؟ ڈیرک شول نے جواب دیا کہ ہمارے ہر ملک کے ساتھ تعلقات مختلف نوعیت کے ہیں، امریکا کے پاکستان اور بھارت کے ساتھ یقیناً اصولی اختلافات ہیں، سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم ان اختلافات کے باوجود کس طرح کام کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان، امریکا کے ساتھ دشمنی کا متحمل نہیں ہو سکتا، وزیر اعظم

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ کام کرنے کے حوالے سے ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ ہم شراکت داری اور تعاون کے جذبے کے ساتھ ان اختلافات کو دور کرنے جارہے ہیں اور ان تمام چیزوں پر نظر رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں جو ہم آپس میں بانٹتے ہیں، ہم اپنے مفادات اور اقدار پر قائم ہیں لیکن ہم اس سے کہیں زیادہ مشترکہ طور پر بانٹ سکتے ہیں۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ اگر چین، بھارت کو اپنا اہم اتحادی بناتا ہے تو کیا امریکا کو اس پر تحفظات ہوں گے، اس پر شول نے جواب دیا کہ ہم چین کے ساتھ تعلقات کو بھارت کے ساتھ منسلک نہیں کر رہے، دونوں ممالک کی اہمیت اپنی جگہ ہے اور دونوں ممالک کے حوالے سے ہمارے مختلف اہداف، عزائم اور چیلنجز ہیں‘۔

تاہم انہوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ امریکا کو عالمی سطح پر چین کے حوالے سے تشویش لاحق ہے، چین پوری دنیا میں جو کردار ادا کر رہا ہے وہ امریکا کے مفادات میں نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان کے ساتھ 'دیرینہ' تعاون کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، امریکا

انہوں نے کہا کہ امریکا، چین کے ساتھ مشترکہ اہداف مثلاً موسمیاتی تبدیلی پر کام کرنے کو ترجیح دیتا ہے لیکن چین نے اس موضوع پر بات کرنے سے انکار کردیا ہے۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ چین کے قرضوں کے بوجھ کی وجہ سے کیا پاکستان کو بھی سری لنکا جیسے معاشی حالات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے؟ تو ڈیرک شول نے جواب دیا کہ ’ہمیں اس بات کی فکر ہے کہ چین کے ساتھ معاہدے کرنے والے ممالک چاہے وہ جنوبی ایشیا سے ہوں یا کہیں اور سے، اُن کا انجام اچھا نہیں ہوتا، ہم عالمی دنیا کو واضح طور پر پیغام دینا چاہتے ہیں کہ آپ کے پاس فیصلہ کرنے کے پورے اختیارات ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں