میچ کے 40 میں سے 35 اوورز گزر چکے ہیں۔ پاکستان کو 130 رنز کے تعاقب میں آخری 5 اوورز میں صرف 45 رنز درکار ہیں۔ شاداب خان اور افتخار احمد تو کھیل ہی رہے ہیں، آگے آصف علی، محمد نواز اور خوشدل شاہ نے بھی آنا ہے، یعنی گھبرانے کی کوئی بات ہی نہیں۔

لیکن کسی کو اندازہ بھی تھا کہ اس خاموشی تلے کیا طوفان چھپا بیٹھا ہے؟ اگلے 4 اوورز میں کیا غدر مچنے والا ہے؟ پاکستان کی مزید 6 وکٹیں گریں گی اور معاملہ آخری اوور اور آخری وکٹ تک جائے گا؟

جب آخری اوور شروع ہوا تو افغان تماشائیوں کا جشن اپنے عروج پر تھا کیونکہ پاکستان کو 11 رنز کی ضرورت تھی اور آخری بلے باز نسیم شاہ کریز پر موجود تھے۔ یہاں جو ہوا، وہ کسی کے گمان میں بھی نہ تھا کہ نسیم شاہ پاکستان کے نجات دہندہ بن جائیں گے۔ جی ہاں! نسیم نے ابتدائی 3 اوورز میں صرف 19 رنز دے کر 3 وکٹیں لینے والے باؤلر فضل حق فاروقی کو پہلی دونوں گیندوں پر ہی چھکے جڑ دیے۔ یوں پاکستان نے ایک وکٹ سے ناقابلِ فراموش کامیابی حاصل کرلی۔

اس جیت سے بڑا تھا اس پر منایا جانے والا غیر معمولی جشن، غالباً 19ویں اوور میں پیش آنے والے واقعے کی وجہ سے، جس میں آصف علی اور افغان باؤلر فرید احمد میں جھڑپ ہوئی تھی اور میچ کا درجہ حرارت بہت زیادہ بڑھ گیا تھا۔

بہرحال، پاکستان کی اس کامیابی نے نہ صرف افغانستان، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بھارت کو بھی ایشیا کپ کی دوڑ سے باہر کردیا ہے یعنی دفاعی چیمپیئن اپنے اعزاز کے دفاع میں ناکام ہوچکا ہے۔


پاک-افغان کرکٹ، ایک دلچسپ تاریخ


پاکستان اور افغانستان کی کرکٹ تاریخ بھی دونوں ملکوں کی سیاسی تاریخ کی طرح پیچیدہ بھی ہے اور دلچسپ بھی۔ 80ء کی دہائی میں سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد افغان مہاجرین کی بڑی تعداد نے پاکستان کا رخ کیا تھا۔ پھر یہاں مہاجر کیمپوں میں ہی انہیں پہلی بار کرکٹ کا پتہ چلا۔ جس طرح ہندوستان و پاکستان نوآبادیاتی دور میں اس کھیل کی محبت میں مبتلا ہوئے، افغان بھی پہلی نظر میں کرکٹ کو دل دے بیٹھے۔

جنگ ختم ہوئی اور کرکٹ واپس افغانستان پہنچ گئی، یہاں تک کہ 2011ء میں اسے ون ڈے انٹرنیشنل میچ کھیلنے کی اجازت مل گئی۔ 2012ء میں شارجہ کا یہی میدان تھا، جہاں اس نے پاکستان کے خلاف پہلی بار کوئی ایک روزہ کھیلا۔ تب سے آج تک دونوں ممالک مختلف فارمیٹس میں 7 مرتبہ آمنے سامنے آئے ہیں اور ہر بار فتح نے پاکستان کے قدم چومے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان کی جیت کا مارجن کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔

آخری 4 میچوں نے تو سنسنی خیزی کی حدیں ہی پار کرلیں۔ یہ ایسے مقابلے تھے جنہیں دیکھنے سے پہلے محکمہ صحت کا انتباہ چلانا چاہیے تھا کہ کمزور دل رکھنے والے پاک-افغان مقابلوں سے دُور رہیں۔ خود اندازہ لگا لیں:

ایشیا کپ 2018ء میں پاکستان کو افغانستان کے خلاف آخری اوور میں 10 رنز کی ضرورت تھی اور اس کی 7 وکٹیں گرچکی تھیں۔ تب شعیب ملک نے مسلسل 2 گیندوں پر چھکا اور چوکا لگا کر پاکستان کو جتوایا، صرف اور صرف 3 وکٹوں سے۔

پھر ورلڈ کپ 2019ء کا وہ یادگار مقابلہ ہوا، جس میں 228 رنز کے تعاقب میں 156 رنز پر پاکستان 6 وکٹوں سے محروم ہوچکا تھا۔ تب عماد وسیم کے ناقابلِ شکست 49 رنز اور آخر میں وہاب ریاض کے 9 گیندوں پر 15 رنز نے پاکستان کو بمشکل آخری اوور میں ہدف تک پہنچایا اور ایک مرتبہ پھر ملی 3 وکٹوں سے کامیابی۔

گزشتہ سال یعنی 2021ء کے ٹی20 ورلڈ کپ میں بھی پاک-افغان ٹکراؤ ایسا ہی ہیجان خیز تھا۔ 148 رنز کے تعاقب میں پاکستان کو آخری 2 اوورز میں 24 رنز درکار تھے، جب آصف علی نے کریم جنت کو ایک ہی اوور میں 4 چھکے لگا کر میچ کا خاتمہ کیا۔


تاریخ کا بہترین ٹی20 میچ؟


پھر ایشیا کپ 2022ء آگیا۔ افغانستان کے خلاف پاکستان کے سارے آدھے پونے بلے باز آؤٹ ہوچکے تھے اور معاملہ آخری گولی اور آخری سپاہی تک پہنچ گیا تھا۔ افغانستان پاکستان کے خلاف کبھی جیت کے اتنا قریب نہیں پہنچا تھا۔ تب نسیم شاہ ایک لمحے کے لیے شاہد آفریدی بن گئے۔

فاتحانہ دوڑ لگاتے ہوئے نسیم شاہ نے پہلے بلّا پھینکا، پھر ہیلمٹ پھینکا، پھر بغل گیر ہوتے حسن علی کو دھکیلا، پھر دستانے پھینکے اور بڑی مشکل سے خوشدل شاہ اور دیگر کھلاڑیوں کے قابو میں آئے۔ ایسا لگتا تھا ان میں بجلی بھر گئی ہے۔

دوسری طرف افغان کھلاڑیوں کے چہرے انتہائی افسردہ تھے، جن کو پاکستانی کپتان بابر اعظم اور نائب کپتان شاداب خان نے تسلّی دی۔ کیونکہ وہ ایک مرتبہ پھر دل ہی جیت پائے، میچ نہیں۔ بہرحال، یہ مقابلہ مدتوں یاد رکھا جائے گا بلکہ تاریخ کے بہترین ٹی20 میچوں میں شمار ہوگا۔


میچ پلٹا کہاں سے؟


مقابلہ مکمل طور پر افغانستان کی گرفت میں تھا بلکہ اس کی گرفت مگرمچھ کے جبڑوں جیسی مضبوط تھی، لیکن 19ویں اوور کی پانچویں گیند پر آصف علی کے آؤٹ ہونے سے معاملہ خراب ہوگیا۔

ہوا یہ کہ افغان باؤلر فرید احمد نے آصف کی وکٹ لینے کے بعد ان کے بہت قریب جاکر جشن منایا اور غالباً کچھ الفاظ بھی ادا کیے۔ جس پر آصف علی بپھر گئے اور انہوں نے فرید کو دھکا دیا۔ اس دھکم پیل کے دوران آصف نے فرید پر اپنا بلّا بھی اٹھایا، دوسرے کھلاڑیوں نے بیچ بچاؤ کروایا۔ لیکن یہی وہ لمحہ تھا جس نے افغان کھلاڑیوں کی توجہ بانٹ دی۔ ان کا ذہن مقابلے کے بجائے جھگڑے پر لگ گیا اور میچ ان کے ہاتھوں سے نکل گیا۔

ویسے لگتا ہے کہ دنیائے کرکٹ میں ایک نئی رقابت (rivalry) جنم لے رہی ہے۔ جتنا جذباتی ماحول پاک-افغان میچوں میں نظر آ رہا ہے، محسوس ہوتا ہے کہ کچھ ہی عرصے میں کہا جائے گا کہ آج روایتی حریف پاکستان اور افغانستان کے مابین کرکٹ میچ کھیلا جائے گا۔


ایک نئے ہیرو کا جنم


شاید آپ کو جان کر حیرت ہو کہ نسیم شاہ نے اپنے ٹی20 انٹرنیشنل کیریئر کا آغاز اسی ایشیا کپ سے کیا ہے۔ انہوں نے 28 اگست کو بھارت کے خلاف اپنا پہلا ٹی20 کھیلا تھا اور صرف 4 میچوں میں وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے ہیں۔ آج افغانستان کے خلاف باؤلنگ میں بھی 4 اوورز میں صرف 19 رنز دے کر ایک وکٹ حاصل کی تھی اور پھر آخر میں 2 چھکوں کے ساتھ ‘فاتحِ شارجہ’ بن گئے۔


اب کیا ہوگا؟


سب سے پہلے تو یہ کہ ایشیا کپ کا فائنل طے ہوچکا ہے، جس میں 11 ستمبر کو پاکستان اور سری لنکا مقابل ہوں گے۔ یعنی سپر 4 کے باقی ماندہ دونوں میچ کا فائنل کی دوڑ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ان میچوں میں بھارت افغانستان سے اور پاکستان سری لنکا سے کھیلے گا لیکن دونوں ‘ڈیڈ ربر’ ہوں گے۔

یہ پاکستان اور سری لنکا کے مابین چوتھا ایشیا کپ فائنل ہوگا۔ دونوں ملک پہلی بار 1986ء میں مقابل آئے تھے اور جیت سری لنکا کے نام رہی تھی۔

سن 2000ء میں پاکستان پہلی بار ایشیا کپ جیتا تھا، تو اسی سری لنکا کو شکست دے کر چیمپیئن بنا تھا۔ 2014ء میں پاکستان نے آخری بار ایشیا کپ کا کوئی فائنل کھیلا تھا، تب بھی مقابل سری لنکا ہی تھا اور فاتح بھی وہی بنا۔ پاکستان نہیں جیت پایا۔ اس کے بعد سے آج تک دونوں یعنی پاکستان اور سری لنکا کبھی ایشیا کپ فائنل تک نہیں پہنچے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس بار فائنل کون جیتتا ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

نثار Sep 09, 2022 12:17am
کاش چین اور ترکی کی کرکٹ ٹیم بھی ہوتی، پوری دنیا میں دو ہی تو دوست رہ گئے ہیں ہمارے