ایرانی جوہری پروگرام کی پُرامن نوعیت کی ضمانت نہیں دے سکتے، عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی

اپ ڈیٹ 08 ستمبر 2022
جوہری معاہدہ کے حوالے سے مذاکرات اب تک تعطل کا شکار ہیں —فوٹو:رائٹرز
جوہری معاہدہ کے حوالے سے مذاکرات اب تک تعطل کا شکار ہیں —فوٹو:رائٹرز

جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے اقوام متحدہ کے نگراں ادارے عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے کہا ہے کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام کی پُرامن نوعیت کی ضمانت نہیں دے سکتا اور ماضی میں جوہری مواد کے غیر اعلانیہ مقامات کی موجودگی کے حوالے سے جو سوالات اٹھائے گئے تھے ان میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کا کہنا ہے کہ ’ہم اس بات کی یقین دہانی نہیں کروا سکتے کہ ایران جوہری پروگرام پُرامن نوعیت کا ہوگا‘۔

یہ بھی پڑھیں: آئی اے ای اے کی تحقیقات ختم ہوئے بغیر جوہری معاہدہ بے معنی ہے، ایرانی صدر

انہوں نے مزید کہا کہ ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ایران نے جوہری ایجنسی کے ساتھ حفاظتی امور پر کوئی بات نہیں کی ہے، جس کی وجہ سے ایران جوہری پروگرام میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔

تین غیر اعلانیہ مقامات پر جوہری مواد کی موجودگی کے حوالے سے جواب جمع کرانے کے لیے آئی اے ای اے ایران پر دباؤ ڈال رہی ہے، یاد رہے کہ آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز نے جون میں ہونے والے اجلاس میں ایک قرارداد منظور کی تھی۔

ایران نے ایک بار پھر اپنے مؤقف کی تائید کی ہے کہ جوہری پروگرام پُرامن ہے اور رواں ہفتے وہ اس بات پر مصر تھے کہ عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے عالمی طاقتوں کے ساتھ ہوئے 2015 کے جوہری پروگرام پر معاہدے کی بحالی کے لیے تحقیقات کو حتمی شکل دینا ہوگی۔

مزید پڑھیں: ایران نے آئی اے ای اے کو جوہری مقامات کی تصاویر دینے سے انکار کردیا

رپورٹ میں کہا گیا کہ رافیل گروسی نے اس بات پر زور دیا کہ ایران تین غیر اعلانیہ مقامات پر تحقیقات کے حوالے سے اٹھائے گئے تمام سوالات پر اپنی تمام قانونی ذمہ داریاں نبھائے۔

ایک اور رپورٹ کے مطابق ایران نے جون میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ ایجنسی کے معائنہ کاروں کو جوہری سرگرمیوں کی نگرانی کے لیے 27 کیمروں کو منقطع کیا جائے جس کے بعد آئی اے ای اے، ایران کے اس فیصلے پر نظرثانی کر رہا ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ کیمروں کو منقطع کرنے سے ایران کے جوہری پروگرام کی پُرامن نوعیت کے لیے ایجنسی کی صلاحیت پر نقصان دہ اثرات ثابت ہوں گے۔

مذاکرات تعطل کا شکار

یاد رہے کہ 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کے حوالے سے مذاکرات میں گزشتہ ماہ پیش رفت ہوئی تھی، جس کے بعد جوہری معاہدے کے حوالے سے مذاکرات اب تک تعطل کا شکار ہیں۔

سال 2018 میں اُس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یکطرفہ طور پر مذکورہ جوہری معاہدے سے دستبردار ہو گئے تھے اور ایران پر اقتصادی پابندیاں دوبارہ لگادی گئی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: ایران جوہری معاہدہ روکنے کی کوشش: موساد کے سربراہ کا امریکا کا دورہ کرنے کا اعلان

ایران نے اپنے جوہری پروگرام پر معاہدے کی حدود اور ایران میں 3 مقامات سے یورینیم دریافت ہونے کے حوالے سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔

عالمی ایجنسی کا کہنا تھا کہ یورینیم کے ذخیرے کا تخمینہ اب 3 ہزار 940 کلوگرام ہے جو کہ معاہدے میں طے شدہ حد سے 19 گنا زیادہ ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں