پنجاب پولیس میں تقرر و تبادلے پر وزیراعلیٰ اور آئی جی میں اختلافات ختم

اپ ڈیٹ 10 ستمبر 2022
وزیر اعلیٰ پنجاب نے آئی جی آفس کے تجویز کردہ 12 افسران کے انٹرویوز لیے — فائل فوٹو
وزیر اعلیٰ پنجاب نے آئی جی آفس کے تجویز کردہ 12 افسران کے انٹرویوز لیے — فائل فوٹو

پنجاب کے وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الہٰی اور انسپکٹر جنرل آف پولیس فیصل شاہکار کے درمیان پولیس تعیناتیوں اور تبادلوں کے معاملے پر ایک ہفتے سے جاری ڈیڈلاک مثبت پیش رفت کے ساتھ ختم ہوگیا اور تازہ پیشرفت میں وزیر اعلیٰ پنجاب نے آئی جی آفس کے تجویز کردہ 12 افسران کے انٹرویوز لیے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق حالیہ پیش رفت میں آئی جی آفس نے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) کے تقرر کے لیے پہلی بار 3 سینئر خاتون پولیس افسران کے نام تجویز کیے، ضلع میں مرد افسران کی اکثریت کی وجہ سے خواتین افسران کو ضلعی پولیس کی سربراہی کا بہت کم موقع دیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب پولیس میں بڑے پیمانے پر تقرر و تبادلے

عہدیدار کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے پنجاب پولیس میں 90 فیصد سیاسی تقرریوں کی وجہ سے آئی جی آفس اور وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ کے تعلقات ایک ہفتے سے تنازعات کا شکار تھے، ان تقرریوں میں مرکزی اسٹیک ہولڈز ہونے کے باوجود سینٹرل پولیس آفس (سی پی او) کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی، آئی جی نے پنجاب حکومت کو واضح پیغام دیا کہ پولیس کمیونٹی میں ان کی کمان کمزور ہو چکی ہے اور وہ اپنے محکمے میں تبادلوں اور تعیناتیوں پر کسی بھی طرح کا سمجھوتہ کرنے کے بجائے عہدہ چھوڑنے کو ترجیح دیں گے۔

عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ دونوں فریقین کے درمیان اختلافات اب دور ہوگئے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ آئی جی پنجاب پولیس فیصل شاہکار اور وزیر اعلیٰ پرویز الہیٰ نے 12 پولیس افسران کے انٹرویو لیے تاکہ ان کی آر پی او اور ڈی پی او کے عہدوں پر تعیناتی پر غور کیا جاسکے، آئی جی پولیس نے پولیس افسران کے پینل کی سفارش کی تھی جبکہ آر پی او ڈیرہ اسمٰعیل خان، لیہ، نارووال اور اوکاڑہ کے ڈی پی او کے لیے ناموں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

مزید پڑھیں: پنجاب کے 2سینئر پولیس اہلکاروں کی خدمات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے حوالے

فیصل شاہکار نے ہر پینل کےلیے 3 نام تجویز کیے، ڈی جی خان کے آر پی او کے لیے جن پولیس افسران کا انٹرویو کیا گیا ان میں ڈی آئی جی خرم علی شاہ، ناصر ستی اور عمران راشد شامل تھے، جبکہ ڈی پی او کے عہدے کے لیے انٹرویو دینے والوں میں ایس ایس پیز اور ایس پی عمارہ اطہر، محمد فیصل، شائستہ ندیم، سید حسنین حیدر، ریٹائرڈ کیپٹن واحد محمود، سید کرار حسین، محمد فرقان بلال، شازیہ سرور اور منصور قمر شامل تھے۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ خواتین پولیس افسران کی نامزدگی کے لیے آئی جی پنجاب کی نئی پالیسی کے تحت خواتین پولیس افسران کی نمائندگی کے لیے کُل سفارشات تقریباً 35 فیصد ہیں، ان کا کہنا تھا کہ اضلاع میں خواتین کی نمائندگی میں اضافے پر بات کرنے پر فیصل شاہکار کو کچھ پولیس افسران کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

یاد رہے کہ آئی جی نے پہلی بار 2 خواتین پولیس افسران کو پنجاب پولیس کے اعلیٰ ترین فورم میں پولیس ایگزیکٹو بورڈ کا رکن بنایا تھا، انہوں نے تمام علاقائی اور ضلعی پولیس افسران کی جگہ پر خاتون پولیس افسران کے تقرر کا حکم بھی جاری کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: غیر متعلقہ افراد کی سیکیورٹی پر مامور 13 ہزار سیکیورٹی اہلکار واپس

نوٹی فکیشن کے مطابق آئی جی پولیس نے خواتین پولیس افسران کو کمیٹیوں، فیلڈ پوسٹنگ اور دیگر فورمز اور کانسٹیبل سے ایس پی کی ترقی دینے کی ہدایت کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ لاہور کے تھانوں میں 6 لیڈی پولیس اہلکاروں کی بطور انچارج تفتیش پر ترقی بھی خواتین عملے کی حوصلہ افزائی کا تسلسل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک سیاسی تقرریوں کا تعلق ہے تو پولیس چیف نے ڈی پی او لیہ کی تقرری کے لیے ایک پولیس افسر کی ’سیاسی اثروسوخ‘ کی بنیاد پر تقرری کو مسترد کردیا ہے، مذکورہ پولیس افسر نے ڈی پی او کا عہدہ حاصل کرنے کے لیے ضلع لیہ کی تمام سیاسی جماعتوں کی اہم سیاسی شخصیات سے سفارش کرائی لیکن آئی جی نے ان درخواستوں کو مسترد کردیا۔

تبصرے (0) بند ہیں