آرمی چیف کے تقرر سے متعلق عمران خان کی وضاحت سے مطمئن ہوں، صدر مملکت

اپ ڈیٹ 09 ستمبر 2022
صدر مملکت نے کہا کہ آرمی چیف کے تقرر کے معاملے پر سلجھے ہوئے انداز سے گفتگو ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں— فائل فوٹو: ڈان نیوز
صدر مملکت نے کہا کہ آرمی چیف کے تقرر کے معاملے پر سلجھے ہوئے انداز سے گفتگو ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں— فائل فوٹو: ڈان نیوز

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پی ٹی آئی چیئرمین اور سابق وزیر اعظم کے آرمی چیف کے تقرر سے متعلق متنازع بیان کے حوالے سے کہا ہے کہ عمران خان نے اپنے بیان کی مناسب وضاحت دے دی ہے اور میں ان کی وضاحت سے مطمئن ہوں۔

نجی ٹیلی ویژن چینل 'جیو نیوز' کے پروگرام ’کیپیٹل ٹاک‘ میں گفتگو کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہا کہ حالیہ سیلاب کے دوران تمام سیاسی جماعتیں متحرک ہیں، ملک کے تمام ادارے جیسے این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم اے اچھا کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان کو کئی قسم کے دباؤ کا سامنا ہے، ملک پر معیشت کا دباؤ ہے، حکومت کی تبدیلی کا دباؤ ہے، روس، یوکرین جنگ کے باعث گندم کی نقل و حمل میں مشکلات سمیت دیگر وجوہات کے باعث دباؤ ہے، ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے جس کی وجہ ہم اس طرح کے مسائل سے نمٹنے میں مشکلات کا شکار ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان آرمی چیف سے متعلق اپنے بیان کی خود وضاحت کریں، صدر مملکت

صدر عارف علوی نے کہا کہ دنیا بھر میں جہاں بھی سیلابی کیفیت ہوتی ہے اسے روکنے کے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں، ماحولیاتی تبدیلی ہو رہی ہے، کہا جاتا تھا کہ پاکستان ٹمپریٹ کلائمیٹ ہے اس لیے یہاں پر زیادہ اثر ہوگا اور خشک سالی ہو گی، مگر کیفیت یہ ہے کہ یہاں پر بارشیں بھی زیادہ ہیں، تو یہ ایک ناقابل یقین ماحولیاتی تبدیلی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سیلاب کے دنوں میں پہلی چیز عوام کی جان بچانا ہوتی ہے اور میں کریڈٹ دیتا ہوں پاک فوج کے جوانوں کو جو ہمیشہ ہر اول دستہ بنتے ہیں، ہماری ایئر فورس اور نیوی بھی سندھ کے اندر آئی اور آرمی بھی، یہ ہر اول دستے اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ کر لوگوں کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود جانوں کا نقصان تو ہوا، اس کا نعم البدل نہیں ہوتا مگر کچھ چیزوں میں انسان سیکھ لیتا ہے۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ کو یاد ہوگا کہ چار پانچ سال پہلے بڑی سخت گرمی کراچی میں ہوئی، ایک ہزار کے قریب لوگ ہیٹ اسٹروک سے مر گئے، اس کے بعد بھی گرمی تو ہوئی لیکن لوگوں نے سیکھ لیا کہ سروں کو کور کرو اور اپنے آپ کو ہائیڈریٹڈ رکھو۔

مزید پڑھیں: صدر عارف علوی امریکا اور پاکستان کے درمیان بہتر تعلقات کے خواہاں

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پانی کی اسٹوریج کی قلت ہے، اس سیلاب سے مزید یہ بات سامنے آئی کہ اسٹوریج اور ڈیمز بننے چاہئیں، مگر اگلا قدم یہ ہے کہ کالا باغ ڈیم سیاست زدہ ہوا، کیوں؟ بھروسہ نہیں ہے۔

'سیاسی قوتوں کے درمیان بات چیت ضروری ہے'

صدر مملکت نے کہا کہ ساری صوبائی اسمبلیوں نے اس کے خلاف قراردادیں پاس کی ہوئی ہیں، اسٹوریجز بننی چاہئیں اور ڈیمز پر اتفاق رائے پیدا کرلیا جائے، ٹیلی میٹری کرلی جائے تاکہ یہ جو جھوٹ کا پلندہ ہے کہ کس زمانے میں پانی ریلیز ہوا، کب نہیں ہوا، کتنا ریلیز ہوا، اس کو ٹیلی میٹری سے ہینڈل کریں، تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر ڈیمز تعمیر کیے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ ملک کو درپیش بحرانوں سے نمٹنے اور محاذ آرائی کو کم کرنے کے لیے سیاسی قوتوں کے درمیان بات چیت ضروری ہے، اس سلسلے میں انہیں مثبت پیش رفت کی توقع ہے

آرمی چیف کے تقرر سے متعلق گزشتہ دنوں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی جانب سے دیے گئے بیان سے متعلق سوال کے جواب میں صدر مملکت نے کہا کہ آرمی چیف کے تقرر سے متعلق جو مشاورتی بات چیت ہو تو، میں سمجھتا ہوں کہ اس کے اندر کوئی حرج نہیں، کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ کبھی کبھی ججز کی تعیناتی میں بھی مسئلہ ہوجاتا ہے جیسا کہ آپ نے گزشتہ دنوں دیکھا۔

انہوں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کو جتنی زیادہ مشاورت کے ساتھ طے کرلیا جائے تو زیادہ اچھا ہے ورنہ آرمی چیف کے تقرر کے اعتباز سے پاکستان کو ایک دھچکا پرویز مشرف کے زمانے میں ہوا، صرف آرمی چیف کے تقرر کے معاملے پر پورا آئین لپیٹ دیا گیا، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملے پر اگر سلجھے ہوئے انداز سے گفتگو ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک ٹکراؤ اور تنازع کا تعلق ہے تو آج کل ملک میں میں کوئی بھی بات کرتا ہوں تو کوئی نہ کوئی شخص میرے اس بیان میں کوئی خامی تلاش کرکے میرے بھی پیچھے پڑجاتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ ریاست پاکستان کو اب کوشش کرنی چاہیے کہ ٹکراؤ اور تنازعات کم سے کم ہوں، اس وقت بھی گفتگو کے دوران میری کوشش ہوگی کہ تنازع کم ہو۔

یہ بھی پڑھیں: شہدا کے جنازے میں میری عدم شرکت کو غیر ضروری طور پر متنازع بنایا جا رہا ہے، صدر

عمران خان کے بیان پر آئی ایس پی آر کی جانب سے ردعمل سے متعلق سوال پر ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ سابق وزیر اعظم نے اپنے بیان کی مناسب وضاحت دے دی ہے، دراصل ہم الفاظ کے چناؤ کے اندر ماہر نہیں ہیں، لیکن اب انہوں نے وضاحت کردی ہے اور میں ان کی وضاحت سے مطمئن ہوں۔

واضح رہے کہ گزشتہ دنوں سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان نے کہا تھا کہ زرداری اور نواز شریف اپنی پسند کا آرمی چیف لانا چاہتے ہیں کیونکہ انہوں نے پیسا چوری کیا ہوا ہے، یہ ڈرتے ہیں کہ یہاں کوئی تگڑا اور محب وطن آرمی چیف آگیا تو وہ ان سے پوچھے گا، اس ڈر سے یہ حکومت میں بیٹھے ہیں کہ اپنی پسند کے آرمی چیف کا تقرر کریں گے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ کیا آرمی چیف ان سے این او سی لے کر بنائیں گے، یہ لوگ سیکیورٹی رسک ہیں، یہ دو لوگ ملک کے غدار ہیں، کسی صورت ملک کی تقدیر ان کے ہاتھ میں نہیں ہونی چاہیے، اس ملک کا آرمی چیف میرٹ پر ہونا چاہیے، جو میرٹ پر ہو اس کو آرمی چیف بننا چاہیے، کسی کی پسند کا آرمی چیف نہیں ہونا چاہیے۔

بعد ازاں ،6 ستمبر کو عمران خان نے آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے دیے گئے اپنے بیان کا دفاع کرتے ہوئے تھا کہ ان کی تنقید تعمیری تھی اور میرٹ پر آرمی چیف کی سلیکشن کی بات کرنا کیا غلط ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان کے فوجی قیادت سے متعلق ہتک آمیز بیان پر فوج میں شدید غم و غصہ ہے، آئی ایس پی آر

پشاور میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کا کہنا تھا کہ کسی صورت نواز شریف اور آصف زرداری کو پاکستان کا آرمی چیف سلیکٹ نہیں کرنا چاہیے۔

'وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں'

صدر مملکت نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میری خواہش ہوتی ہے کہ جب وضاحت ہوگئی، مثال کے طور پر عمران خان کے خلاف توہین عدالت کا کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر ساعت ہے، اس میں جو بھی وہ بیان دیں گے، سچے دل سے جو بھی ان کی کیفیت ہے، اس کو بیان کردیں۔

توہین عدالت کیس میں عمران خان کی جانب سے غیر مشروط معافی سے متعلق سوال پر صدر مملکت نے کہا کہ آج ان کا کیس عدالت میں زیر سماعت ہے، مجھے نہیں معلوم آج عدالت میں کیا صورتحال اور کیفیت ہے۔

انہوں نے کہا کہ میرے وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، اختلاف رائے ہوسکتا ہے، کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرے ان کے ساتھ تعلقات خراب ہیں، موجودہ حکومت کی جانب سے آج تک 90 سے زائد سمریز اور سفارشات موصول ہوئیں جن میں سے میں نے صرف 3 سے 4 سمریاں روکیں اور ان کی وضاحت بھی کردی کہ سمریاں کیوں روکی گئیں جن میں ای وی ایم، اووسیز ووٹنگ اور پنجاب کی سیاسی صورتحال سے متعلق ایک دو سفارشات کو روکا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت میں تمام سیاسی جماعتوں کو آزادی ہوتی ہے، سب کی حکومت اور ایوان میں نمائندگی ہوتی ہے، جمہوریت میں تنازعات اور اختلافات کا امکان رہتا ہے لیکن جب تک وہ اختلاف آئین کے دائرے میں رہیں تو جمہوریت کو اتنا نقصان نہیں ہوتا، معیشت کے لحاظ سے نقصان ہونے کا اندیشہ اس اعتبار سے رہتا ہے کہ نئی آنے والی حکومت سابقہ حکومت کے تمام اقدامات اور پالیسیوں کو ختم کرکے اپنی پالیسیاں نئے سرے سے نافذ کرے، اس صورت میں معیشت کو بڑا نقصان ہوتا ہے۔

'عدلیہ، فوج، انتظامیہ کے درمیان اتفاق رائے ضروری ہے'

ان کا کہنا تھا کہ یہی وجہ تھی کہ میں نے نیب آرڈیننس میں ترامیم کو روکا، میں سمجھتا تھا کہ 20 سال ہم نے نیب قوانین کو چلایا، اب ختم نہیں کرنا چاہیے، تاہم اس میں انسانی حقوق، سیاسی آزادیوں کی تلفی سے متعلق جو خامیاں ہیں، ان کو دور کرنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: صدر مملکت کا وزیراعظم کو خط، صحافیوں کے خلاف پُرتشدد واقعات پر تشویش کا اظہار

فوج کے سیاست سے دور رہنے، نیوٹرل رہنے کے بیان پر کی جانے والی تنقید اور طعنوں سے متعلق سوال پر صدر عارف علوی نے کہا کہ ماضی کے تلخ واقعات کے تناظر میں جب فوج اتنا اچھا ماحول پیدا کرنا چاہتی ہے اور چاہتی ہے کہ افواج کا سیاسی کردار ختم ہو، پھر یہ سب سیاست دان اپنی لڑائیوں کے دوران اگر ذرا سی بھی کہیں کوئی مدد ملنے کا امکان ہے تو پھر فوج کو موقع دیا جاتا ہے کہ وہ مداخلت کرے۔

انہوں نے کہا کہ ملک کے بڑے اداروں، عدلیہ، فوج اور انتظامیہ کے درمیان قوم کی تعمیر کے لیے اتفاق رائے ضروری ہے، ملے جلے رجحانات اور مکس سگنلز کہیں سے بھی نہیں آنے چاہئیں، اس وقت مکس سگنلز تمام اداروں سے نکلتے رہتے ہیں، اس سلسلے میں میری بھی کوشش اور خواہش ہے کہ تمام سیاسی قوتوں کے درمیان اس اتفاق رائے کے لیے کام کروں، میں سمجھتا ہوں کہ سیاسی بات چیت اور ڈائیلاگ ضروری ہے، آپ جانتے ہیں کہ اس وقت ملک میں بحران ہے، ہم اس بحران پر پردہ نہیں ڈال سکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے دیکھا کہ گزشتہ دو ڈھائی سال کے دوران ایک جماعت کہہ رہی تھی کہ الیکشن جلدی کراؤ لیکن اس وقت کی حکمران جماعت کہتی تھی کہ الیکشن نہیں کرانے جب کہ آج وہ جماعت اپوزیشن میں ہے اور مطالبہ کر رہی ہے کہ جلد الیکشن کرائے جائیں، میں سمجھتا ہوں کہ سب کو مل بیٹھ کر اس معاملے پر بات کرنی چاہیے، 6 سے 8 ماہ کا فرق ہے الیکشن کی تاریخوں میں جن پر بیٹھ کر کوئی اتفاق رائے پیدا کرنا چاہیے اور سیاسی کشیدگی کو کم کرنا چاہیے۔

صدر مملکت نے کہا کہ ملک کے مسائل کے حل کے لیے اتفاق رائے کے ساتھ الیکشن کا انعقاد بہت مناسب تجویز ہے، میں اس سلسلے میں حوصلہ افزائی بھی کر رہا ہوں، پس منظر میں رابطے بھی کر رہا ہوں، تصادم جب بھی ہو، ملک کے لیے اور معیشت کے لیے نقصان دہ ہوگا جب کہ معیشت مختلف عوامل کی وجہ سے دباؤ کا شکار ہے، اس معاشی دباؤ کو کم کرنے کے لیے ہمیں پالیسیوں کا تسلسل چاہیے۔

'یوٹیوب، ٹوئٹر، فیس بک پر پابندی توپ سے مچھر مارنے کے مترادف ہے'

انہوں نے کہا کہ میں اس حوالے سے کوئی پیش گوئی نہیں کروں گا لیکن یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں پر امید ہوں، مثبت کوششیں سود مند ثابت ہوں گی۔

یہ بھی پڑھیں: صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا انتخابی ترمیمی بل پر دستخط سے انکار

ان کا کہنا تھا کہ عوام کو ہینڈل کرنا اور ان کو متحرک رکھنا بہت مشکل کام ہے، یہ کام کمروں میں بیٹھ کر نہیں ہوسکتا، سیاستدانوں کو نااہل کرنا کسی مسئلے کا حل نہیں ہے، کن حالات میں کیا بات کہی گئی اس کو مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے، اب زمانہ بدل رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں مسلمانوں کو جدید ایجادات کا بائیکاٹ کرنے سے بہت نقصان ہوا، اب یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم یوٹیوب، ٹوئٹر، فیس بک کو بند کردیں، اس طرح کی پابندیاں توپ سے مچھر مارنے کے مترادف ہوں گی، آپ لوگوں کے منہ بند نہیں کرسکتے، اگر ان کے منہ بند کریں گے تو دیگر خطوں میں بسنے والے لوگ بولنا شروع کردیں گے، آپ کس کس کا منہ بند کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: سیاسی جنگ بندی کے مشورے سے پیچھے ہٹنے پر صدر مملکت کو تنقید کا سامنا

پاکستان میں حکومت کی تبدیلی سے متعلق عمران خان کے امریکی مداخلت کے بارے میں سوال پر صدر مملکت نے کہا کہ مجھے نہیں پتا کہ مداخلت ہوئی یا نہیں، میں نے سپریم کورٹ سے کہا تھا کہ واقعاتی شہادت آپ لاسکتے ہیں، میں نے کہا تھا کہ پاکستان کو اس طرح کی چیزوں کی تحقیقات کرانی چاہئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ضیاالحق کا طیارہ تباہ ہوا، لیاقت علی خان کا قتل ہوا، بے نظیر کو قتل کیا گیا، اس طرح کے کسی واقعے کی تحقیقات نہیں کی گئی، اگر قومی سلامتی کمیٹی نے تحقیقات کے بعد مداخلت سے انکار کیا ہے تو اس کو پبلک کردیا جائے، اگر غیر ملکی مداخلت کا الزام ہے تو قومی سلامتی کمیٹی کی تحقیقات کو مدنظرِ عام پر لایا جائے، میں مطمئن ہوجاؤں گا۔

تبصرے (0) بند ہیں